کرم میں فریقین کے اسلحہ جمع کرانے تک مرکزی شاہراہ بند رکھیں گے: صوبائی حکومت

یہ مرکزی شاہراہ کرم کو پاکستان کے دیگر حصوں سے ملاتی ہے اور گذشتہ تقریباً دو مہینوں سے بند ہے۔

17 دسمبر 2024 کی اس تصویر میں کرم میں ایدھی رضاکار امدادی سامان جہاز کے ذریعے پہنچاتے ہوئے (اے ایف پی/ علی مرتضیٰ)

خیبر پختونخوا حکومت کا کہنا ہے کہ جب تک ضلع کرم میں اسلحہ جمع نہیں کرایا جاتا تب تک مرکزی ٹل پاڑا چنار شاہراہ کو نہیں کھولا جائے گا۔

یہ مرکزی شاہراہ کرم کو پاکستان کے دیگر حصوں سے ملاتی ہے اور گذشتہ تقریباً دو مہینوں سے بند ہے۔ اس وقت یہ شاہراہ لوئر کرم کے علاقے بگن سے آگے پاڑا چنار تک پر قسم کی ٹریفک کے لیے بند ہے جس کی وجہ سے اپر کرم میں ادویات، پیٹرول اور دیگر اشیائے ضرورت کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔

اسی روڈ پر گاڑیوں پر مختلف فائرنگ کے واقعات کی وجہ سے حالات کشیدہ تھے اور رواں سال سات نومبر سے سکیورٹی فورسز کے گاڑیوں کے حصار میں مسافر گاڑیوں کو پاڑا چنار جانے کی اجازت تھی۔

تاہم 21 نومبر کو لوئر کرم کے علاقے اوچت میں پولیس کے مطابق ایک مسافر گاڑیوں کے قافلے پر حملے کے نتیجے میں 42 افراد جان سے گئے تھے۔

اسی حملے کے اگلے روز مشتعل مظاہرین نے لوئر کرم میں پولیس کے مطابق 22 نومبر کو بگن بازار میں دکانوں اور گھروں کو آگ لگا کر جلایا تھا۔

اس کے بعد شعیہ اور سنی قبائل کے مابین کرم کے مختلف علاقوں میں جھڑپیں جاری رہیں جس میں پولیس کے مطابق 133 افراد جان سے گئے تھے۔

تاہم تقریباً دو ہفتوں سگ سے کرم میں فریقین کے مابین فائر بندی پر اتفاق کیا گیا ہے لیکن مرکزی شاہراہ ٹل پاڑا چنار بدستور بند ہے۔

امن جرگہ اور ڈیڈ لاک

کرم میں امن قائم کرنے کے لیے وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی ہدایت پر ایک جرگہ قائم کیا گیا ہے جن کی دونوں فریقین کے ساتھ مختلف نشستیں ہوئی ہیں اور جرگے کی سربراہی صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف کر رہے ہیں۔

تاہم بظاہر ابھی تک ڈیڈ لاک برقرار ہے کیونکہ جرگے  کے سربراہ اور صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف کے مطابق حکومت نے دونوں فریقین کو اسلحہ جمع کرنے اور مورچے مسمار کرنے کا کہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گذشتہ روز جرگہ اراکین نے بیرسٹر سیف سے ملاقات بھی کی ہے اور بیرسٹر سیف کے دفتر سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ بھاری اسلحے کی حوالگی اور بنکرز کے خاتمے کے بغیر مرکزی شاہراہ نہیں کھولی جا سکتی۔

بیرسٹر سیف نے پریس کانفرنس میں بتایا، ’بھاری اسلحے سے میری مراد کلاشنکوف وغیرہ نہیں بلکہ اینٹی ایئر کرافٹ اسلحہ، میزائل، اور آر پی جیز کا استعمال کیا جاتا ہے اور اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس کی استعمال پر سخت کارروائی ہو گی۔‘

اسلحے کو حکومت کے حوالگی پر فریقین کے تحفظات کے حوالے سے بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ اسلحہ حوالگی پر تحفظات دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کیونکہ کچھ لوگ اسلحہ جمع کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔

بیرسٹر سیف نے واضح الفاظ مین بتایا کہ جب تک اسلحہ جمع نہیں کیا جاتا تو مرکزی شاہراہ نہیں کھولی جا سکتی کیونکہ سڑک کی بندش کی وجہ ہی حملے اور فائرنگ ہے۔

انہوں نے بتایا، ‘ہم کوشش کرتے ہیں کہ فریقین کو وقت دیں اور وہ رضاکارانہ طور پر بھاری اسلحہ جمع کریں لیکن اگر اسلحہ جمع نہیں کرتے، تو پھر ہم ایک ڈیڈ لائن دے کر کارروائی کریں گے اور حکومت کا حتمی فیصلہ ہے۔’

اسلحے کی موجودگی کے حوالے سے بیرسٹر سیف نے بتایا کہ وہاں غیر قانونی اسلحہ موجود ہے کیونکہ کرم کا بارڈر افغانستان سے ملتا ہے اور پہلے بارڈر پر باڑ نہیں لگائی گئی تھی۔

ہسپتالوں میں کیا حالات ہیں؟

گذشتہ دو دنوں سے سوشل میڈیا پر ضلعی ہسپتال کا ایک خط گردش کر رہا ہے جس میں کہا کیا گیا ہے کہ ادویات کی قلت کی وجہ سے بچوں کی اموات ہو رہی ہیں۔

خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے اس کی تردید کی گئی ہے، تاہم گذشتہ روز ایدھی فاؤنڈیشن نے ایئر ایمبولینس کے ذریعے ادویات کی کھیپ پہنچائی۔

 ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی بھی کرم گئے تھے اور ان  کے مطابق بچوں کی اموات نمونیا کی ادویات کی کمی کی وجہ سے ہو رہی ہیں۔

فیصل ایدھی نے بتایا، ‘گذشتہ کچھ عرصے سے ہسپتال کے وارڈز کو گرم رکھنے کی سہولت نہ ہونے اور نمونیا کی ادویات کی کمی سے 27 بچوں کی اموات رپورٹ ہوئی ہیں۔’

دوسری جانب صوبائی مشیر صحت احتشام علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ادویات کی سپلائی رکی ہے اور نہ ختم ہوئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ادویات کی قلت سے ابھی تک کوئی موت واقع نہیں ہوئی ہے جبکہ گذشتہ روز وزیر اعلیٰ کے ہیلی کاپٹر کے ذریعے ضروری ویکسین اور ادویات کی تیسری کھیپ صدہ اور پاڑا چنار ہسپتال پہنچائی گئی ہے۔

احتشام علی کے مطابق، ‘دو ماہ کی ویکسین اور ضروری ادویات کی کھیپ ہسپتالوں میں پہنچائی گئی ہیں اور اب تک دو کروڑ سے زائد ادویات کی کھیپ کرم پہنچائی گئی ہے۔’

بیرسٹر سیف نے اس حوالے سے بدھ کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ بچوں کی اموات کے اعدادوشمار گذشتہ تقریباً 75 دنوں کی ہیں جس میں اموات کی کچھ دیگر وجوہات شامل ہیں۔

’لیکن یہ میں بالکل نہیں کہتا کہ مشکلات نہیں ہیں۔ ‘

مقامی افراد کے مطابق ہسپتالوں میں ضروری ادویات تو پہنچائی گئی ہے لیکن مارکیٹ میں فارمیسیوں میں ادویات کی کمی ہے اور روزانہ کی بنیاد پر دوا لینے والوں کے لیے شدید مشکلات ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان