بائیں ہاتھ کے جتنے بھی اوپنر بلے باز پاکستانی ٹیم کی طرف سے کھیل چکے ہیں ان میں سعید انور سب سے بلند اور منفرد نظر آتے ہیں۔
حالانکہ صادق محمد، عامر سہیل، توفیق عمر، سلمان بٹ، عمران فرحت امام الحق اور بہت سے دوسرے بھی ہیں لیکن سعید انور جس پائے کے بلے باز تھے ایسا کوئی ہو نہیں سکا۔
ان کا اعتماد اور اپنے شاٹس پر یقین اس قدر پختہ تھا کہ وہ پہلی گیند سے سٹروک کھیلنے جاتے تھے وہ کبھی اس ارادے سے نہیں کھیلتے تھے کہ پہلے خود کو پچ پر محفوظ کریں یا اپنی آنکھ گیند پر جمائیں اور سب سے بڑھ کر پہلے سکور کو دو عدد تک پہنچا لیں پھر کہیں جا کر اپنے ہاتھوں کو کھولیں۔
وہ حملے پر یقین رکھتے تھے، وہ اپنے وقت کے خطرناک بولرز کے سامنے بھی اس ہی اعتماد کے ساتھ کھیلتے تھے جیسے کلب کرکٹ کھیل رہے ہوں۔
ان کے ریٹائر ہوجانے کے بعد پاکستان کو کئی بائیں ہاتھ کے اوپنرز ملے لیکن کوئی ان سا تو دور کی بات ان کے جزئیات کے مترادف بھی نہیں آ سکا ہے۔
لیکن اب کرکٹ پر گہری نظر رکھنے والے ناقدین کراچی کے صائم ایوب کو سعید انور کا ثانی کہہ رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ تواتر سے سکور کررہے ہیں بلکہ ان کے وکٹ کے چاروں طرف شاٹس نے انہیں منفرد بنا دیا ہے۔
صائم نے اگرچہ ابھی صرف نو میچ کھیلے ہیں، کم عمر ہیں، لیکن اتنی جلدی انہوں نے تین سینچریاں بنا کر سب کو حیران کر دیا ہے۔
ان کی تیسری سینچری جنوبی افریقہ کے جوہانسبرگ گراؤنڈ میں بنی ہے۔
تیسرے اور آخری ایک روزہ میچ میں انہوں نے جس مہارت اور چابک دستی سے بیٹنگ کی اس نے کرکٹ مداحوں کو بہت محظوظ کیا۔ ان کی سینچری کسی عجلت اور افراتفری کا شکار نہیں تھی۔ بلکہ وکٹ کے چاروں طرف چھکوں اور چوکوں سے مزین تھی۔
اگر صائم کی اس سیریز میں کارکردگی کا موازنہ دنیا میں جاری کسی اور سیریز سے کیا جائے تو صائم بہت آگے نظر آتے ہیں۔
پاکستان اور جنوبی افریقہ کی سیریز کے ساتھ دوسری اہم ترین سیریز آسٹریلیا اور انڈیا کی جاری ہے لیکن صائم ایوب جیسی بیٹنگ وہاں نظر نہیں آتی ہے۔
صائم نے یکے بعد دیگرے دو سینچریاں بنا کر ایک نیا ریکارڈ ہی نہیں بنایا بلکہ پاکستان کی زبوں حال اوپننگ کو بھی سنبھال لیا ہے۔
جس پچ پر عبداللہ شفیق ناکام اور بابر اعظم محتاط تھے، اس پر صائم اطمینان سے ڈرائیو بھی کر رہے تھے اور پل شاٹ بھی مار رہے تھے۔
طویل القامت مارکو یانسن کو جس طرح ایک اوور میں ایک چھکا اور دو چوکے مارے وہ کوئی اتفاقیہ شاٹ نہیں تھے، بلکہ درست وقت پر شاٹ کا فیصلہ اور پہلے سے ایک تیاری تھی۔
ایک ذہین بلے باز کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ بولر کے مزاج کو سمجھ جاتا ہے۔ صائم نے اپنی پوری اننگز میں جس سکون اور اطمینان سے بیٹنگ کی وہ قابل دید تھی، وہ اس قدر پر اعتماد تھے کہ بابر اعظم کو مشورہ دے رہے تھے۔
صائم کی جو خاصیت انہیں سعید انور سے الگ کرتی ہے وہ ان کے پل شاٹ ہیں۔ سعید انور بھی پل شاٹ بہت اچھے کھیلتے تھے لیکن ان کی زیادہ توجہ آف سائیڈ سکوائر آف وکٹ ہوتی تھی۔ وہ فلک بھی کم کرتے تھے جبکہ صائم فلک اور گلانس پر چھکے مار دیتے ہیں۔
صائم ایوب کی بیٹنگ سے رکی پونٹنگ اور ناصر حسین بہت متاثر ہیں، پونٹنگ تو انہیں مستقبل کا سپر سٹار کہہ رہے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ صائم ایک مکمل کھلاڑی ہیں جبکہ شون پولک نے انہیں دوسرا سعید انور قرار دیا ہے۔
بابر اعظم انہیں چیتا کہتے ہیں اور غلط بھی نہیں ہے، کیونکہ کگیسو ربادا اور یانسن کے خلاف سینچری بچوں کا کھیل نہیں۔
گلستان جوہر کی گلیوں سے آغاز
کراچی کے زیادہ تر نوجوانوں کی طرح صائم ایوب کی کرکٹ کا آغاز بھی ٹیپ بال کرکٹ سے ہوا۔
اپنے والد ایوب احمد اور چچا محمد جاوید کو وہ کم سنی سے ہی کلب کرکٹ کھیلتے ہوئے دیکھتے تھے۔ جب گھر میں کرکٹ کا سامان اور ہر لمحہ کرکٹ پر بات ہو تو ماحول میں کرکٹ بس جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صائم کو بھی وہیں سے شوق ملا اور پھر رمضان میں راتوں کو ٹیپ بال کرکٹ نے ان کے شوق کو مہمیز کر دیا۔
ٹیپ بال کرکٹ سے وہ جلد ہی کلب کرکٹ کی طرف آ گئے۔ کراچی کی کلب کرکٹ میں وہ اس وقت کے بڑے کھلاڑیوں اسد شفیق، سرفراز احمد، انور علی کے ساتھ کھیل رہے تھے۔
ان کے انداز اور اعتماد کو دیکھتے ہوئے انہیں پاکستان انڈر 19 ٹیم کے لیے 2018 میں منتخب کر لیا گیا، وہ اس وقت 16 سال کے تھے۔
ایشیا کپ کی اس ٹیم میں آج کے سپر سٹار نسیم شاہ بھی تھے۔
بنگلہ دیش کے خلاف ان کی 49 رنز کی اننگز نے انہیں نمایاں کر دیا۔ ان کی کلب کرکٹ دیکھتے ہوئے سرفراز احمد نے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیم کے لیے ایمرجنگ پلئیرز کی کیٹیگری میں ان کی سفارش کر دی۔
حالانکہ صائم ایوب نے اس موقعے تک کوئی فرسٹ کلاس میچ نہیں کھیلے تھے تاہم وہ کوئٹہ کی ٹیم کا حصہ بن گئے۔
انہیں 2021 کے پی ایس ایل سیزن میں تواتر سے مواقع ملے لیکن وہ پرفارم نہ کر سکے جس پر فرنچائز نے اگلے سیزن میں انہیں ڈراپ کر دیا۔
تاہم 2022 میں ان کا فرسٹ کلاس کیرئیر تب شروع ہوا جب انہیں کراچی وائٹس کی نمائندگی کا موقع ملا۔
اسی سیزن میں جب وہ نیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ کھیلے تو ان کی کچھ اننگز نے انہیں شہرت دلا دی۔
ان کی بیٹنگ دیکھتے ہوئے بنگلہ دیش لیگ میں رنگ پور رائیڈرز نے انہیں ٹیم میں شامل کر لیا گیا، جہاں انہوں نے چند اچھی اننگز کھیلیں۔
پی ایس ایل 2023 میں وہ کسی ٹیم کے رکن نہیں تھے لیکن امام الحق کی انجری کے باعث پشاور زلمی نے انہیں اضافی پلیئر کے طور پر شامل کر لیا۔
یہاں سے صائم کے کیریئر کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ انہوں نے کوئٹہ کے خلاف جب 74 رنز کی وننگ اننگز کھیلی تو وہ ایک جارح مزاج اوپنر کے طور پر سامنے آئے۔
بابر اعظم کے ساتھ صائم نے شاندار کارکردگی دکھائی اور نتیجے میں صائم کو افغانستان کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز میں پاکستان کی قومی ٹیم کا اوپنر منتخب کر لیا گیا۔
وہ اگرچہ بڑا سکور نہ کر سکے لیکن انہیں قومی ٹیم تک رسائی مل گئی۔
گرین کیپ
ان کے لیے سب سے اہم بات یہ تھی کہ وہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں مسلسل سکور کررہے تھے۔ اور اسی کارکردگی کی بنا پر انہیں 2023 میں آسٹریلیا کے دورے پر جانے والی پاکستانی ٹیم کا رکن منتخب کر لیا گیا۔
اگرچہ ان کے کھیلنے کے مواقع کم تھے لیکن امام الحق کی ناکامی کے بعد انہیں سڈنی ٹیسٹ میں موقع مل گیا۔
ان کا آغاز بدترین تھا، کیرئیر کی پہلی اننگز میں وہ سعید انور کی طرح صفر پر آؤٹ ہو گئے، دوسری اننگز میں وہ 33 رنز بنا سکے۔
یہ کوئی اچھا آغاز نہیں تھا۔، لیکن ان کی ڈومیسٹک کارکردگی نے انہیں ڈراپ نہیں ہونے دیا۔
انہیں پی ایس ایل کی کارکردگی پر ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے لیے منتخب کیا گیا اور پھر انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں بھی موقع دیا گیا انہوں نے اس سیریز میں 77 رنز کی عمدہ اننگز کھیلی۔
جنوبی افریقہ کے دورے سے پہلے وہ زمبابوے کے خلاف بھی کھیلے اور ایک میچ میں شاندار سینچری بنائی جس نے ان کا اعتماد مزید بڑھا دیا۔
ان کے کیرئیر میں اہم سنگ میل جنوبی افریقہ کا موجودہ دورہ ہے۔ دوسرے ٹی ٹوینٹی میچ میں وہ سینچری کے قریب پہنچ گئے لیکن ٹیم کے سکور کی خاطر سینچری مکمل نہ کر سکے کیونکہ آخری اوور کی تمام گیندیں عباس آفریدی اکیلے کھیل گئے۔ اس اننگز نے انہیں مزید شہرت بخشی۔
جب ایک روزہ سیریز شروع ہوئی تو پاکستان شکست خوردہ تھا، لیکن اب صائم ایوب کے کچھ اور ہی ارادے تھے۔
پہلے ہی میچ میں جنوبی افریقہ کے 239 رنزکے ہدف کو اس وقت قابل عبور بنایا جب پاکستان کے تمام اچھے بلے باز بری طرح آؤٹ ہو چکے تھے۔
انہوں نے سلمان علی آغا کے ساتھ 141 رنز کی رفاقت کرکے میچ جیت لیا اور جنوبی افریقہ میں اپنی پہلی سینچری بھی بنا لی۔
ان کی بیٹنگ کو دیکھ کر افریقی تماشائی انگشت بدنداں تھے، لیکن ان تماشائیوں کو معلوم نہیں تھا کہ صائم ایوب کا بیٹ ایک اور سینچری اگلنے والا ہے۔
جوہانسبرگ کے وانڈرز میں صائم کی تیسری سینچری سعید انور کی یاد تازہ کر گئی۔
جس طرح وہ کلائیوں کی مدد سے گیند کو پلک جھپکتے میں باؤنڈری کے باہر پہنچا دیتے تھے ایسے ہی صائم بھی کر رہے تھے۔
صائم کے انداز میں سعید انور کا وقار اور برائن لارا کی سادگی تھی، وہ جس خوبصورتی سے ربادا اور یانسن کو فلک کرکے چھکے ماررہے تھے اس سے سب حیرت زدہ تھے۔
ان کا ہر شاٹ جوہانسبرگ میں داد تحسین سمیٹ رہا تھا۔
نو لک شاٹ
صائم جب فرنچائز کرکٹ میں آئے تو وہ کسی بھی گیند کو اپنی کلائیوں کے زور پر فائن لیگ پر اس طرح ہٹ کرتے کہ گیند باہر چلی جاتی وہ اس شاٹ سے بہت مشہور ہوئے لیکن اس شاٹ کے باعث وہ بہت مرتبہ آؤٹ بھی ہوئے۔
اب ان کی بیٹنگ میں ٹھہراؤ آگیا ہے، تجربے کے ساتھ پچ کو سمجھنے کا فن اور بولر کے صبر کو پارہ پارہ کرنا آ گیا ہے۔
اب وہ نو لک شاٹ نہیں کھیلتے بلکہ ہر گیند کو اس کے میرٹ پر کھیلتے ہیں جس سے اب وہ لمبی اننگز کھیل سکتے ہیں۔ صائم نے اب غلطیوں سے سیکھنا شروع کر دیا ہے۔
بولنگ اضافی ہنر
صائم صرف قابل دید بلے باز ہی نہیں بلکہ اچھے آف سپنر بھی ہیں، جنوبی افریقہ کے خلاف آخری میچ میں انہوں نے مستند بولر کی طرح دس اوورز کا کوٹہ پورا کیا اور ایک وکٹ بھی لی۔
وہ مستقبل میں اچھے آل راؤنڈر بن جائیں گے۔
صائم ایوب کی فارم اور ان کا انہماک دیکھتے ہوئے پاکستان ٹیم کو چیمپیئنز ٹرافی میں ان سے بہت زیادہ توقعات ہیں کہ وہ ایک میچ ونر کھلاڑی ہیں۔