پاکستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاہور میں سموگ کی گمبھیر صورت حال سے نمنٹے کے لیے جمعرات کو آزمائشی سموگ ٹاور اپنا کام شروع کر رہا ہے۔
پنجاب کا محکمہ تحفظ ماحولیات سموگ ٹاور کا یہ تجربہ ایک نجی یونیورسٹی کے تعاون سے کر رہا ہے، جس کی کامیابی کی صورت میں صوبے کے دوسرے شہروں میں بھی ایسے ٹاور نصب کیے جائیں گے۔
محکمہ تحفظ ماحولیات پنجاب کے حکام کا کہنا ہے کہ سموگ پر قابو پانے کی ہر طرح کی دیگر کوششیں بھی جاری ہیں۔
لاہور سمیت صوبے کے متعدد شہروں میں ہر سال سموگ کی شدت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
رواں سال نومبر میں لاہور کا ایئرکوالٹی انڈکس ایک ہزار چار سو پوائنٹ تک پہنچ گیا تھا۔ اس کے علاوہ موسم سرما میں یہ عموماً تین سو سے اوپر ہی رہتا ہے، جس پر قابو پانے کے لیے پنجاب حکومت کئی اقدامات کر رہی ہے۔
ڈائریکٹرجنرل تحفظ ماحولیات عمران حامد نے بتایا کہ ’ہم لاہور کے علاقے محمود بوٹی میں سموگ ٹاور لگانے کا تجربہ کر رہے ہیں، کامیاب ہو گئے تو اس ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے لاہور سمیت سموگ سے متاثرہ دیگر شہروں میں بھی سموگ ٹاور نصب کریں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ کہ ’تجربے کے مکمل ہونے میں کچھ ہفتے لگ سکتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پنجاب حکومت نہ صرف اندرونی اقدامات سے سموگ پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے، بلکہ انڈیا سمیت دیگر ممالک سے رابطے کر کے خطے میں اس حوالے سے مشترکہ لائحہ عمل کے لیے بھی کام کیا جا رہی ہے۔‘
ان کے بقول: ’پنجاب میں فیکٹریوں، اینٹوں کے بھٹوں، فصلیں جلانے اور دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف سخت کارروائی کی جارہی ہے۔‘
سموگ ٹاور سے ماحول کا تحفظ ممکن ہے؟
سموگ ٹاورز یا سموگ فری ٹاورز فضائی آلودگی کے ذرات (سموگ) کو کم کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر ایئر پیوریفائر کے طور پر ڈیزائن کیے جاتے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق ڈچ آرٹسٹ ڈان روز گارڈے نے سب سے پہلے سموگ ٹاور ستمبر 2015 میں روٹرڈیم میں نصب کیا تھا۔ بعد میں اسی طرح کے ٹاور چین کے دارالحکومت بیجنگ اور تیانجن، پولینڈ کے شہر کراکاؤ اور جنوبی کوریا کے شہر اینیانگ میں بھی لگائے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چینی میڈیا کے مطابق 2016 میں چین کے شہر ژیان شانسی میں 100 میٹر اونچا سموگ ٹاور لگایا گیا تھا، جس پر 20 لاکھ ڈالر لاگت آئی تھی، جب کہ اس کے سالانہ آپریشنل اخراجات 30 ہزار ڈالر ہیں۔ یہ چائنیز اکیڈمی آف سائنسز کے انسٹی ٹیوٹ آف ارتھ انوائرمنٹ کے محققین کی نگرانی میں کام کرتا ہے۔
انڈیا میں سموگ ٹاورز
انڈین میڈیا رپورٹس کے مطابق انڈیا میں 2022 تک کم از کم آٹھ سموگ ٹاورز لگ چکے تھے، جن میں سے کچھ چھوٹے، جب کہ دہلی میں انڈیا کورین سسٹمز 12 میٹر (40 فٹ) اونچا سموگ ٹاور لگایا جا رہا ہے، جسے ’کورن سٹی کلینر‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ڈان روزگارڈ کے سموگ ٹاور سے مختلف ہے۔ کیونکہ یہ ہوا کو صاف کرنے کے لیے آئنائزیشن تکنیک پر انحصار نہیں کرے گا۔
یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ ٹاور تین کلومیٹر کے دائرے میں 75 ہزار لوگوں کے لیے ہوا کو فلٹر کرے گا اور ہر روز تین کروڑ 20 لاکھ مکعب میٹر سے زیادہ ہوا صاف کرے گا۔
اس سال کے شروع میں انڈین میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ دہلی پر سموگ کی گھنی چادر چھا جانے کے باوجود کناٹ پلیس میں لگا سموگ ٹاور، جس کا افتتاح وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے 2021 میں کیا تھا، بند کر دیا گیا ہے۔ اس ٹاور پر 23 کروڑ بھارتی روپے لاگت آئی تھی مگر یہ اس ضرورت کے وقت کام نہیں کر رہا تھا، جبکہ دہلی اور اس کے قریبی علاقوں میں ہوا کے معیار کی خطرناک سطح دیکھی جا رہی تھی۔
انڈین میڈیا رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ 24 میٹر اونچا یہ سموگ ٹاور ایک کلومیٹر کے دائرے میں فی سیکنڈ ایک ہزار کیوبک میٹر ہوا صاف کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا اور اس پر 40 پنکھے اور 5000 ایئر فلٹرز نصب تھے مگر اس کی کارکردگی اس کے ڈیزائن کی توقعات کے مقابلے میں بہت ہی کم رہی۔
دہلی پولوشن کنٹرول کمیٹی (ڈی پی سی سی) نے سموگ ٹاور کو بند کرنے کا فیصلہ اس وقت کیا تھا، جب یہ انکشاف ہوا کہ سموگ ٹاور سے 100 میٹر کے فاصلے پر پارٹیکیولیٹ میٹر (پی ایم) میں صرف 12 سے 13 فیصد کمی آئی ہے۔