مشرقِ وسطیٰ: امن بظاہر ناممکن، مگر تاخیر ناقابلِ قبول

مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے برطانوی وزیر اعظم کا بین الاقوامی فنڈ کا قیام درست فیصلہ ہے، سابق ارکان پارلیمنٹ ایلسٹر برٹ اور وائن ڈیوڈ کی تحریر

26 دسمبر، 2024 کو غزہ شہر میں دو فلسطینی بچیاں ایک امدادی پوائنٹ سے ملنے والے کھانے کو دیکھ رہی ہیں (اے ایف پی)

غزہ میں جنگ بندی پر اتفاق نہ ہونے، مغربی کنارے میں بڑھتے ہوئے تشدد، اور اسرائیل اور ایران کے مابین ممکنہ وسیع تر علاقائی تنازعے کے خطرے کے پیش نظر، ’امن‘ پر گفتگو کرنا ایک ناممکن کام محسوس ہو سکتا ہے۔ 

لیکن یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب ہمیں حل تلاش کرنے کی اپنی کوششوں کو دگنا کر دینا چاہیے۔
 
یہ لمحہ جو حالیہ یادداشت میں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لیے بدترین صورت حال ہے، اس لیے آیا کیوں کہ جب مشرق وسطیٰ کے امن مذاکرات بہت مشکل ہوگئے یا سبوتاژ ہوئے تو دنیا نے ان سے کنارہ کشی اختیار کرلی،اور انہیں ’اگلی بار‘ پر چھوڑ دیا۔ 
 
’اگلی بار‘ کہنے کا نتیجہ اب زندگیوں کے سب سے بڑے نقصان کی صورت میں نکلا ہے جس نے خطے کو غیر مستحکم کر دیا اور نسلوں کے لیے تباہی چھوڑ دی۔ ہم یہ غلطی دہرا نہیں سکتے۔
 
یہی وجہ ہے کہ برطانوی وزیر اعظم کیئر سٹارمر کا اسرائیل فلسطین امن کے لیے بین الاقوامی فنڈ قائم کرنے اور ’خطے میں سول سوسائٹی کی حمایت کے لیے لندن میں افتتاحی اجلاس بلانے‘ کا عزم اتنا اہم ہے۔ 
 
وزیر اعظم کا یہ عزم اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ عالمی سطح پر امن قائم کرنے کی کوششوں کو نچلی سطح سے سپورٹ کرنے کی ضرورت کو تسلیم کیا جا رہا ہے تاکہ ان لوگوں کی آواز کو فعال طور پر شامل کیا جا سکے جو طویل عرصے سے مساوات، سلامتی اور سب کے لیے وقار کے لیے کام کر رہے ہیں۔
 
اسرائیل فلسطین سفارت کاری کی گذشتہ کئی ناکام کوششوں، جن میں آخری کوشش 10 سال سے زیادہ عرصہ پہلے ہوئی تھی، کے دوران ان معاشرتی عوامل پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی جو ان سفارتی کوششوں کی ناکامی کا باعث بنے۔ 
 
کیوں اسرائیلی اور فلسطینی امن کے لیے کام کرنے والے افراد کی کوششوں کو وسعت دینے یا مرکزیت دینے کی کوئی حقیقی کوشش نہیں کی گئی، حالاں کہ ان کے کام سے کسی بھی مستقبل کے عمل کی کامیابی کے امکانات میں نمایاں اضافہ ہو سکتا تھا؟
 
’اوپر سے نیچے‘ یا ’نیچے سے اوپر‘ کے نقطہ نظر پر بحث ایک غیر ضروری مسئلہ ہے۔ ہمیں دونوں کی ضرورت ہے، اور دونوں کو ایک دوسرے کو مضبوط کرنے اور جگہ فراہم کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔
 
یہی وہ موقع ہے جب اسرائیل فلسطین امن کے لیے بین الاقوامی فنڈ سامنے آتا ہے۔ یہ ایک ایسا وسیلہ ہے جو ان نچلی سطح کی کوششوں کو وسعت اور مستقل مزاجی فراہم کرے گا اور مذاکرات کے ذریعے امن کے لیے ضروری سماجی ڈھانچے، اعتماد، سیاسی رفتار، اور نئے خیالات کو فروغ دے۔

یہ فنڈ زیادہ تر اپنی تحریک 1986 میں شمالی آئرلینڈ میں امن قائم کرنے کے لیے قائم کردہ بین الاقوامی فنڈ سے حاصل کرتا ہے، جس وقت امن کا حصول اتنا ہی دور کا خیال لگتا تھا جتنا کہ آج مشرق وسطیٰ میں۔

امریکی، برطانوی، یورپی یونین اور دولت مشترکہ ممالک کی سرمایہ کاری کو اکٹھا کرکے، یہ فنڈ بعد میں ’گڈ فرائی ڈے معاہدے کا غیر گمنام ہیرو‘ کہلایا، جو لیبر حکومت کی تاریخی کامیابیوں میں شامل ہے۔
 
برطانوی پارلیمنٹ میں ایسے فنڈ کے لیے سیاسی جماعتوں کے درمیان جوش و خروش موجود ہے۔ 
 
دیگر لیبر رہنماؤں جیسے کہ وزیر خارجہ ڈیوڈ لامی اور چانسلر ریچل ریوز کی حمایت کے ساتھ، یہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ یہ ایک کنزرویٹو حکومت تھی جس نے 2018 میں اس فنڈ کے خیال کو برطانیہ کی حمایت دی تھی۔ 
 
سابق وزیر اعظم رشی سونک اور لبرل ڈیموکریٹ قیادت نے بھی اس کی حمایت کی۔
 
ہم، اس مضمون کے شریک مصنفین، حکومت اور حزب اختلاف دونوں جگہ کئی سال سے اس خیال کی حمایت کرتے رہے ہیں۔
 
سات اکتوبر کے واقعات اور اس کے بعد کی صورت حال واضح کرتی ہے کہ اب کارروائی کا وقت ہے، اور اس نو تشکیل شدہ برطانوی حکومت کے لیے قیادت سنبھالنے کا وقت ہے۔

سٹارمر کا عزم بڑھتے ہوئے بین الاقوامی اعتراف کے ساتھ ہم آہنگ ہے کہ کسی بھی سفارتی حل میں سول سوسائٹی کا مرکزی کردار ہونا چاہیے۔

2020 میں امریکی کانگریس نے مشرق وسطیٰ کے امن شراکت داری ایکٹ کو منظور کیا، جس کے تحت سالانہ  پانچ کروڑ ڈالر ایسی کوششوں پر خرچ کیے جا رہے ہیں۔ اس ایکٹ کو صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے دور حکومت کے آخری دنوں میں قانون کی شکل دی۔
 
قبل ازیں رواں سال جی سیون کے رہنماؤں نے  غیر معمولی عزم ظاہر کیا کہ سول سوسائٹی کا کردار امن مذاکرات کا ایک اہم جزو ہے۔ 
 
انہوں نے ان کوششوں کے لیے مربوط اور ادارہ جاتی حمایت کی اپیل کی اور اس وژن کو نافذ کرنے کے لیے ایک بین الاقوامی فنڈ کے قیام کی بنیاد رکھی۔
 
برطانیہ کی قیادت اور بین الاقوامی برادری کے درمیان یہ ہم آہنگی وقت کے عین مطابق ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سات اکتوبر کے واقعات اور جاری تشدد نے کمیونٹیوں کے درمیان تقسیم اور عدم اعتماد کو گہرا کر دیا ہے، جس سے دونوں طرف کے انتہا پسندوں کو فائدہ ہوا۔ 

اس اعتماد کو بحال کرنا بحالی کے عمل کا ایک ضروری حصہ ہے اور یہی وہ جگہ ہے جہاں سول سوسائٹی کے امن قائم کرنے والوں کا کام اور بھی اہم ہو جاتا ہے۔
 
سٹارمر کا اعلان کہ وزیر خارجہ لندن میں امن قائم کرنے والوں کی حمایت کے لیے افتتاحی اجلاس کی میزبانی کریں گے، اہم پہلا قدم ہے۔ 
 
یہ اجلاس برطانیہ کے کردار کو خطے کے مستقبل کی تشکیل میں ایک رہنما کے طور پر مضبوط کرے گا۔
 
برطانوی حکومت اس کے لیے تین وجوہات کی بنا پر ایک بہتر پوزیشن میں ہے۔
 
اول یہ کہ سفارتی شراکت داروں سے عوامی سطح پر تعلقات کی بحالی اور مشترکہ وزارتی دوروں کے ذریعے حکومت اپنے اہم تعلقات پر ایک نیا باب رقم کر رہی ہے۔ 
 
دوسری بات کہ برطانیہ مشرق وسطیٰ میں اہم اثر و رسوخ رکھتا ہے، اکثر ان لوگوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرتا ہے جن کے درمیان اختلافات ہو سکتے ہیں۔ 
 
اور تیسرے نمبر پر شمالی آئرلینڈ کا تجربہ۔ سٹارمر اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ شمولیت کی وجہ سے اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ کس طرح سول سوسائٹی نے امن کے لیے بنیادیں رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔
 
برطانیہ ہمیشہ سے ایک قدرتی ثالث رہا ہے۔ آج اس کردار کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ 
 
وزیراعظم اور وزیر خارجہ اب اپنے اس عزم کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں۔ اپنے جی سیون اتحادیوں اور خطے کے شراکت داروں کے ساتھ ساتھ حقیقی امن قائم کرنے والوں کو اکٹھا کر سکتے ہیں اور ایک ایسا ادارہ قائم کر سکتے ہیں جو ماضی کی ناکامیوں سے سبق سیکھے اور اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کو زیادہ منصفانہ، پرامن اور محفوظ مشترکہ مستقبل کی راہ پر گامزن کرے۔

ایلسٹر برٹ سابق رکن پارلیمنٹ ہیں اور 2010 سے 2013 تک ایف سی او میں مشرق وسطیٰ کے وزیر مملکت رہے۔ انہوں نے 2017 سے 2019 تک ایف سی او اور ڈی ایف آئی ڈی کے وزیر مملکت کے طور پر خدمات انجام دیں۔

وین ڈیوڈ سابق رکن پارلیمنٹ ہیں اور 2023 سے 2024 تک مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے شیڈو وزیر رہے۔ انہوں نے 2020 سے 2021 تک شیڈو وزیر برائے خارجہ اور دولت مشترکہ امور کے طور پر کام کیا۔
 
نوٹ: یہ تحریر لکھاریوں کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر