عامر خان اور نانا پاٹیکر ایک پوڈکاسٹ کر رہے تھے ابھی دیکھا، پہلے تو حیرت ہوئی کہ اتنے بڑے پردے والے بھی موبائل کی ننھی سی سکرین میں سمانے پر مان گئے، پھر سوچا کہ دنیا لگی کا داؤ ہے، چلے تو چاند تک ورنہ شام تک، ستارے ہیں، جدھر ہوا کا رخ ہو گا ادھر کا منہ کر لیں گے، اور اس میں برائی بھی کیا ہے، سورج مکھی بھی تو یہی کرتے ہیں، انہیں کس نے روکا آج تک؟
سورج مکھی سے مجھے بچپن میں پڑھی ایک کہانی یاد آ گئی۔ سمندر کا ایک بادشاہ ہوتا ہے اور اس کی بہت سی بیٹیاں ہوتی ہیں جو اسی کے ساتھ سمندر کی تہہ میں اپنے محل کے اندر راج کرتی ہیں۔ بڑے سیپوں کے محل ہوتے ہیں، مچھلیاں ان کی سواری ہوتی ہیں، جدھر دل کیا چلی گئیں، چاندنی میں ساحل پر دوڑ بھاگ کی، جب گھر کی یاد آئی تو واپس ہو لیں، مگر یہ سب کھیل رات کو ہوا کرتے۔ جیسے ہم لوگ مغرب کے وقت گھروں کو لوٹ جانا افضل سمجھتے ہیں ویسے ان کے وہاں فجر کو گھر کا منہ ہوتا تھا، اور یہ لازم تھا۔
ایک دن سمندر بابا کی سب بیٹیاں فجر سے پہلے واپس جانے لگیں تو سب سے چھوٹی نے انکار کر دیا۔ سب نے منت ترلا کیا کہ بھئی چلو واپس لیکن وہ اڑ گئی کہ نہیں، مجھے دیکھنا ہے کہ جب ستارے اور چاند واپس جاتے ہیں تو ادھر کون آتا ہے۔ آخر سب تھک ہار کے چلے گئے۔
ہلکی سی روشنی ہوئی تو اس نے دیکھا کہ مشرق سے سنہرا لباس پہنے ایک شہزادہ اپنی رتھ پہ سوار آہستہ آہستہ اڑا چلا جا رہا ہے۔ چھوٹی لڑکی سارا دن سمجھتی رہی کہ بس اب وہ مجھے دیکھے گا، میرے پاس آئے گا، میں اس کے ساتھ آسمانوں میں چلی جاؤں گی لیکن شہزادہ شام کو دوسرے کونے میں جا کے اوجھل ہو گیا۔
رات کو پھر اس کی بہنیں آ گئیں، سب کھیل کود بھلائے اس کی منت کر رہی تھیں لیکن وہ ۔۔۔ اس نے کہاں ماننا تھا؟ صبح پھر سب چلے گئے، وہ پھر اکیلی دور سے شہزادے کو آتے اور دوسری طرف جاتے دیکھتی رہی۔
کئی سال گزر گئے۔ کچھ کھایا نہ پیا، شہزادے کی راہ دیکھتے دیکھتے آخر وہ سوکھتی چلی گئی اور ایک دن سمندر بابا کی بیٹیوں نے دیکھا کہ جہاں ان کی بہن ہوتی تھی وہاں ایک سورج مکھی سر جھکائے کھڑا ہے۔
سورج مکھی اب بھی اپنی ریت نبھاتا ہے لیکن ہم لوگ بہت سی پرانی چیزوں سے پیچھا چھڑا کر نچنت بیٹھے ہیں۔
نانا پاٹیکر نے پوڈ کاسٹ میں کہا کہ ’کرانتی‘ جب بھی آتی ہے اس کی شروعات تھیٹر سے ہوتی ہے۔ جب تک سب اچھا چل رہا ہے تو تھیٹر والے بھی ہنسی مذاق کریں گے لیکن جب کوئی گڑبڑ ہو گی تو سب سے پہلے تھیٹر پہ اس کے خلاف بات کی جائے گی اور پھر باقی زمانہ اس شدت کو محسوس کرے گا۔
پاکستان میں ہم سنجیدہ تھیٹر کی جڑیں تک کاٹ چکے، سٹیج کے نام پر ہمارے یہاں آخری دنوں میں جو کچھ ہوتا تھا اس کے بعد اگر کوئی گھر میں اماں باوا سے کہے کہ ہم تھیٹر جاتے ہیں تو سامنے سے چماٹ کے علاوہ شاید ہی کوئی جواب آئے۔
ایسے میں ایک ڈرامہ کل رات دیکھنے کا اتفاق ہوا اور کیا ہی عجب ہوا، آپ سوچ سکتے ہیں کہ سورج مکھی کی جو کہانی اوپر میں نے سنائی وہ کوئی انسان سٹیج پر پیش کر سکتا ہے؟ ڈرامہ دیکھنے کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ زینب ڈار یہ بھی کر سکتی ہیں۔
غلام عباس کا مشہور افسانہ آنندی انہوں نے ڈیڑھ گھنٹے میں ایسا پانی کر دیا کہ تماشا کب کا ختم ہوا لیکن میری آنکھوں میں اب تک وہی نم باقی ہے۔
جنریشن زی کے بچے صحیح مخرج سے شین قاف نہ صرف نکال رہے تھے بلکہ ہر لفظ کا تلفظ یوں تھا کہ ایک ہاتھ پہ فرہنگ رکھی ہے اور دوسرا تھیٹر میں ڈرامہ کر رہا ہے۔
تحیر نے جب اعلان کیا کہ ایسے کچھ ہونے لگا ہے تو میں نے سوچا کہ یار اتنے سارے سین ہیں، کردار ہیں، پھر طوائفیں ہیں، کوٹھا ہے، بازار ہے، یہ سب کچھ کیسے ہو گا ایک محدود سٹیج پر؟
پھر دو ماہ بعد میں وہاں بیٹھا تھا اور بلدیہ کا اجلاس دیکھ رہا تھا؛
’یہ عورتیں شادی کیوں نہیں کر لیتیں؟‘
’حضرات! یہ تجویز بارہا ان لوگوں کے سامنے پیش کی جا چکی ہے۔ اس کا ان کی طرف سے یہ جواب دیا جاتا ہے کہ آسودہ اور عزت دار لوگ خاندانی حرمت و ناموس کے خیال سے انہیں اپنے گھروں میں گھسنے نہ دیں گے اور مفلس اور ادنیٰ طبقہ کے لوگوں کو، جو محض ان کی دولت کے لیے ان سے شادی کرنے پر آمادہ ہوں گے، یہ عورتیں خود منہ نہیں لگائیں گی۔‘
’بلدیہ کو ان کے نجی معاملوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ بلدیہ کے سامنے تو یہ مسئلہ ہے کہ یہ لوگ چاہے جہنم میں جائیں مگر اس شہر کو خالی کر دیں۔‘
خلاصہ دیکھیں تو میونسپل کارپوریشن کا مسئلہ آنندی میں یہ تھا کہ کوٹھے شہر سے باہر کہیں چلے جائیں، کوٹھے والیاں گئیں تو سب بازار اور چہل پہل بھی ان کے ساتھ نئی جگہ آباد ہو گئی۔ برسوں بعد پھر بلدیہ کا اجلاس تھا اور مسئلہ ایک مرتبہ پھر وہی تھا کہ کوٹھے والیاں پھر سے اس شہر کو خالی کر دیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کیا یہ افسانہ آج پرانا ہو گیا ہے؟ کیا اس پیشے سے وابستہ افراد کا انسانی طور پہ کوئی احترام آپ کے یہاں موجود ہے؟ کیا آپ انہیں اپنے پڑوس میں رہنے دے سکتے ہیں؟ اسے بھی چھوڑیں، کیا کسی اداکارہ سے یا سکرین پہ نظر آنے والی خاتون سے آپ شادی کر سکتے ہیں؟ کیا آپ کے ماں باپ اس کی اجازت دیں گے؟ بلکہ خیر سے عورت جو بھی ہو، جس بھی کاروبار سے وابستہ ہو، سب سے بڑا وہی سوال ہے آپ کے ملک کا، جو آج بھی تازہ ہے ’یہ عورتیں آخر شادی کیوں نہیں کر لیتیں؟‘
تو ساٹھ ستر برس بعد بھی اگر آنندی کی کرانتی کسی نے جگانے کی ایک کوشش کر دی ہے، اور وہ اس میں بھرپور کامیاب بھی رہا ہے تو میرے خیال میں یہ چند لفظ اسے مبارک باد دینے کے لیے ناکافی ہیں۔
یہ ایک کوشش ہے کہ اصحاب تھیٹر کو بتایا جا سکے کہ تھکن کا شکار نہیں ہونا، یہ ایک ناکافی سا اعلان ہے آپ سب کے لیے کہ ابھی پاکستان میں ایسا کچھ ہو رہا ہے جسے دیکھ کر لگتا ہے کہ سنجیدہ موضوع پر ہلکے پھلکے انداز میں بات کی جا سکتی ہے، اور اسے ایک درخواست بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ محض پیشہ دیکھ کر کسی کی شخصیت کا اندازہ مت لگائیں، اسے انسان سمجھیں، اس کے اندر جھانک لیں!
ورنہ کیا ہے، شہزادہ تو روز صبح اپنی رتھ پہ نکلتا ہے، روز شام اوجھل ہو جاتا ہے، سورج مکھی بھی وہیں، میں بھی وہیں، آپ بھی وہیں، سب کچھ وہی ۔۔۔
خیر، ظفر کمالی نے کہا تھا؛
نگاہوں میں جو منظر ہو وہی سب کچھ نہیں ہوتا
بہت کچھ اور بھی پیارے پس دیوار ہوتا ہے ۔۔۔۔
تو بس مختصراً سمجھ لیں کہ یہ ڈرامہ پس دیوار جھانکنے کی ایک عمدہ مشق تھی۔