2024 کے آخری دن، سال کا آخری کالم تحریر کرتے ہوئے قدرتی طور پر گذشتہ 12 ماہ کے واقعات ذہن میں گردش کرتے ہیں۔
عالمی سطح پر یہ ایک دھماکہ خیز اور ملکی سطح پر ایک ہیجان انگیز سال رہا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ 2024 میں ہونے والے بڑے واقعات اور تبدیلیوں کی گہری چھاپ ہمیں 2025 میں بھی نظر آئے گی۔
اقوام عالم کی غزہ میں ہونے والی بربریت اور قتل عام پر مجرمانہ خاموشی نئے سال میں بھی برقرار رہے گی۔
اقوام متحدہ کی بےبسی بھی جوں کی توں نظر آئے گی۔ امریکہ اور چین کی تجارتی جنگ (جو ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد مزید شدت اختیار کرے گی) اسی طرح جاری رہے گی۔
اگر خطے کی بات کریں تو 2024 میں ہم نے نریندر مودی اور حسینہ واجد کی مقبولیت کا زوال دیکھا۔
نریندر مودی پھر بھی اقتدار میں آنے میں کامیاب رہے، لیکن حسینہ واجد کے ساتھ جو ہوا، اسے انہونی ہی کہا جا سکتا ہے۔
ایران کو ہم نے کمزور ہوتے دیکھا، خاص طور پر پے در پے حزب اللہ اور حماس کے کئی سربراہان کی اسرائیلی حملوں میں جان جانے اور بشار الاسد کا تختہ اچانک الٹنے سے یہ تاثر ابھرا کہ ایران کی طاقت اب اسرائیل کے سامنے کمزور پڑ چکی ہے۔
اپنے ملک کی بات کریں تو پاکستان 2024 میں فروری میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی عدم استحکام میں بری طرح پھنسا رہا۔
معاشرہ تقسیم در تقسیم رہا، اور سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکاری رہیں۔
البتہ 2024 کے اختتام کو اس لحاظ سے بہتر کہا جا سکتا ہے کہ کم از کم حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوا۔
اس سے زیادہ امیدیں وابستہ کرنا شاید قبل از وقت ہو، لیکن یہ ایک ایسی ابتدا ہے جو امید کی ایک کرن پیدا کرتی ہے۔
پچھلے کالم میں، میں نے ذکر کیا تھا کہ تحریک انصاف کی غلط سیاسی حکمت عملی اور بار بار کی غلطیوں نے پارٹی کو بند گلی کے آخر میں موجود دیوار سے لگا دیا ہے۔
اب حکومت کے پاس بھی سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کے لیے نتیجہ خیز مذاکرات شروع کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا۔
ملک کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے حکومت اور تحریک انصاف دونوں کو دو دو قدم پیچھے ہٹنا ہوگا، اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی دونوں فریقین کو سپیس دینی ہو گی۔
چیلنجز صرف معیشت یا سیاسی عدم استحکام تک محدود نہیں ہیں۔
پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے حوالے سے امریکی انتظامیہ کے بیانات اور دباؤ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ امریکی دباؤ مزید بڑھے گا۔
امریکہ عمران خان کی رہائی میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا لیکن جنوبی ایشیا میں اپنے سٹریٹیجک اہداف کو ہر قیمت پر حاصل کرنا چاہتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جنوبی ایشیا میں امریکی پالیسی کا محور انڈو پیسفک ہے، جس کا بنیادی مقصد چین کا راستہ روکنا اور بھارت کو مضبوط بنانا ہے۔
ایسے میں پاکستان پر دباؤ کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے، جس سے کئی گتھیاں خود بخود سلجھ سکتی ہیں۔
یہ سوچنا مضحکہ خیز ہے کہ ایک ایسا ملک جس کی معیشت کا انحصار آئی ایم ایف پر ہو، وہ واشنگٹن پر میزائل داغنے کی کوشش کر رہا ہو گا۔
اس وقت حکومت اور تحریک انصاف دونوں کو یہ واضح موقف اپنانا ہوگا کہ جب بات پاکستان کی ہو تو سیاسی اختلافات رکاوٹ نہیں بن سکتے۔ لیکن اس مقصد کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی عدم استحکام ہے، جس کا خاتمہ نہ صرف ملک بلکہ تحریک انصاف اور حکومت کے لیے بھی ضروری ہے۔
تحریک انصاف ریاست سے لڑتے لڑتے یا دیوار سے ٹکراتے تھک چکی ہے۔
حکومت معیشت کے اچھے اعشاریوں کے باوجود عوام کو مطمئن کرنے میں ناکام رہی ہے، اور مقتدرہ کے لیے بھی عوامی پذیرائی ضروری ہے۔
ان تمام مسائل کا حل مذاکرات سے ہی نکل سکتا ہے۔ ایک ایسا حل ممکن ہے جس میں تمام فریقین کی جیت ہو، لیکن اس کے لیے سب کو دو قدم پیچھے ہٹنا ہوگا اور کچھ نہ کچھ دینا یا کھونا ہوگا۔
تحریک انصاف کے لیے سیاسی دھارے میں واپس آنے کے لیے یہ سودا مہنگا نہیں ہوگا۔
شور ضرور مچے گا کہ آخرکار ڈیل کر لی گئی، لیکن اسے مچنے دیں۔ فی الحال حکومت کو چلنے دیا جائے، اور تحریک انصاف آئندہ انتخابات تک معاملات کو سلجھائے رکھے۔ نتیجتاً پارٹی پر سختیاں کم ہوں گی، لیکن اس سب کا انحصار تحریک انصاف کے رویے پر ہے۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔