2024 میں پاکستان میں انتخابات تو منعقد ہوئے لیکن ان کے نتیجے میں ملک میں اب تک سیاسی استحکام نہیں آ سکا، جس کی سب سے بڑی وجہ پی ٹی آئی قیادت اور کارکنوں کی گرفتاریاں اور پی ٹی آئی کی جانب سے دھرنے، لانگ مارچ اور جلسے جلوس ہیں، جب کہ سوشل میڈیا پر الگ احتجاج جاری ہے۔
اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت یا تو جیلوں میں ہے، یا پھر ان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ خفیہ طاقتوں سے ملے ہوئے ہیں۔
جلسے، جلوس، دھرنے، سول نافرمانی اور اب مذاکرات۔ بظاہر پی ٹی آئی کو خود سمجھ نہیں آ رہی کہ اس کی حکمتِ عملی کیا ہے۔
کیا 2025 میں یہ صورتِ حال برقرار رہے گی یا پی ٹی آئی کا سیاسی فال نامہ اس سال بدلے گا اور مذاکرات کے نتیجے میں کوئی مثبت تبدیلی آئے گی یا بےچینی اور انتشار اس سال بھی برقرار رہے گا؟
مبصرین کے مطابق اس کا انحصار خود تحریک انصاف پر ہے۔
اگر اس نے طرز سیاست تبدیل نہ کیا اور ممکنہ مذاکرات نتیجہ خیز نہ رہے تو بانی پی ٹی آئی کی مبینہ سیاسی شہرت تو برقرار رہے گی لیکن ریلیف ملنا ممکن نہیں ہو گا۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور حکومت کے درمیان دس ماہ بعد بالآخر مذاکرات کے لیے دونوں طرف سے کمیٹیوں کی تشکیل کے بعد باضابطہ مذاکرات کا پہلا دور بھی ہو چکا ہے، جو بظاہر خوش گوار ماحول میں ہوا۔
لیکن بات چیت کے ذریعے سیاسی معاملات کس حد تک آگے بڑھیں گے اس بارے میں دونوں طرف تحفظات برقرار ہیں۔
اس صورت حال میں کچھ سوالات جنم لیتے دکھائی دے رہے ہیں کہ تحریک انصاف کی آئندہ کیا سیاسی حکمت عملی ہو گی؟ مذاکرات نتیجہ خیز ہوں گے یا نہیں؟ حکومت سیاسی استحکام قائم کرنے کے لیے کتنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے؟ انڈپینڈنٹ اردو نے ان سوالوں کے جوابات جاننے کی کوشش کی ہے۔
وزیراعظم کے مشیر برائے قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک نے اتوار کو ٹیکسلا میں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’حکومت نے ہمیشہ مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے کی بات کی ہے۔ لیکن اگرکوئی سمجھ رہا ہے کہ مذاکرات کی آڑ میں ڈیل یا ڈھیل ملے تو یہ ان کی غلط فہمی ہے۔
’مذاکرات میں یہ نہیں ہوگا کہ آپ کو عام معافی دی جائے گی، نو مئی کے کیسز اپنے منطقی انجام کو پہنچیں گے، مذاکرات الگ چیز ہیں اور قانون کاحرکت میں آنا الگ چیز ہے۔‘
دوسری جانب پی ٹی آئی رہنما شعیب شاہین نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پی ٹی آئی سے پہلے مینڈیٹ چھینا گیا، پھر احتجاج کرنے پر ہمیں گولیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ 26ویں ترمیم کے ذریعے عدلیہ کی آزادی سلب کی گئی، ہماری قیادت، رہنما اور کارکن سیاسی مقدمات میں قید اور سزاؤں کا سامنا کر رہے ہیں۔
’ان حالات میں حکومت کیسے امید رکھتی ہے کہ ہم ان کی حکومت چلنے دیں، جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کرتے ہم اس حکومت کو کیسے چلنے دیں گے؟‘
پیپلز پارٹی کے سابق ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات میاں شمس نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’پی پی پی نے ہمیشہ مذاکراتی عمل کو نہ صرف سپورٹ کیا بلکہ ہم ملک میں بڑے مسائل بات چیت کے ذریعے حل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
’تحریک انصاف کو اپنا طرز سیاست تبدیل کرنا پڑے گا۔ حکومت اور پی ٹی آئی کے مذاکرات سے ہی سیاسی استحکام ممکن ہے ہم اس عمل میں کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بانی پی ٹی آئی کو بھی سمجھ آ چکی ہے کہ ٹکراؤ کی بجائے مذاکرات ہی مسائل کا حل ہیں۔ لیکن اصل مسئلہ بانی پی ٹی آئی کے مذاکرات کا نتیجہ تسلیم کرنے کا ہے اور گارنٹی بھی کوئی نہیں۔‘
تجزیہ کار سلمان غنی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’تحریک انصاف کی گذشتہ دس سالوں کی سیاست پر نظر دوڑائی جائے تو عمران خان پارلیمانی سیاست کی بجائے مزاحمتی سیاست پر یقین رکھتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ان کی حکمت عملی پر غور کریں تو اگلے سال بھی تحریک انصاف احتجاجی سیاست کو ہی فروغ دے گی۔ مذاکرات کے نتیجے میں کوئی حل نکلے یا نہ نکلے لیکن حکومت کو وقت دینے پر عمران خان کبھی راضی نہیں ہوں گے۔
’لہذا تحریک انصاف پر سختیوں میں بھی کمی نہیں آئے گی جس سے 2025 میں بھی تحریک انصاف کا سیاسی طرز عمل تبدیل ہونے کا امکان نہیں ہے۔‘
حکومت اور پی ٹی آئی میں مفاہمت کا کتنا امکان؟
حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکراتی عمل اپنی جگہ لیکن دونوں طرف ابھی تک بیانات میں تحفظات برقرار ہیں۔ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید مذاکرات کے نتیجے پر خاطر خواہ عمل درآمد ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
وزیراعظم کے مشیر قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ ’پی ٹی آئی سے مذاکرات میں عمران خان کی رہائی ایجنڈے میں شامل نہیں ہو گی۔‘
’مذاکرات کے لیے پہلے ٹی او آر طے کرنے ہیں، ایجنڈا سیٹ کرنا ہے، اس کے بعد بات آگے چل سکتی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ سول نافرمانی کی تحریک کی کال بھی دیں اور مذاکرات کی بات بھی کریں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت پہلے بھی سنجیدہ تھی اور اب بھی سنجیدہ ہے، 10 مہینوں سے اتحادی اور ہم یہی راگ الاپ رہے ہیں مسائل کا حل صرف مذاکرات میں ہے۔‘
شعیب شاہین نے کہا کہ ’بانی پی ٹی آئی کی ہدایت پر مذاکرات کا عمل ضرور شروع ہونے لگا ہے، لیکن حکومت نے ہمارا مینڈیٹ چوری کیا ہے، اسے آئینی حکومت تسلیم کیسے کر سکتے ہیں؟
’ہم احتجاج کرتے ہیں تو کبھی نو مئی کا واقعہ بنا کر ہمیں گرفتار کیا جاتا ہے اور سزائیں سنائی جا رہی ہیں۔ ہم انصاف کے لیے عدالتوں کا رخ کرتے ہیں تو 26ویں ترمیم کے ذریعے عدالتوں کا اختیار محدود کر دیا گیا۔ نہ ہمارے مطالبے پر نو مئی اور 26 نومبر کو ہمارے نہتے کارکنوں پر گولی چلانے والوں کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی، نہ ان واقعات پر انکوائری کے لیے جوڈیشل کمیشن بنایا جا رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا: ’ایسی صورت حال میں مذاکرات کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں؟ ان مذاکرات میں جو نتیجہ نکلے گا اس پر حکومت عمل کرے گی اس کا بھی ہمیں یقین نہیں ہے۔
’جب تک بنیادی مسائل حل نہیں ہوتے حکومت کے خلاف احتجاج کا راستہ کیسے چھوڑیں؟‘
مذاکرات کے نتائج پرعمل کی گارنٹی کا معاملہ
پیپلز پارٹی کے سابق ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات میاں شمس کے بقول، ’حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات شروع ہونا خوش آئند ہے۔ سیاسی جماعتوں کا گفتگو کے ذریعے مسائل کرنا جمہوریت کا حسن ہے۔
’پیپلز پارٹی نے 2008 سے اب تک مذاکراتی عمل کے ذریعے ہی بڑے بڑے مسائل پر قابو پایا اور سیاسی راستے نکالے۔
ان کا کہنا تھا: ’ہم نے دشمنیاں بھلا کر سیاسی حریفوں کو گلے لگایا، ن لیگ کی قیادت کو بھی یہ احساس دلایا کہ بات چیت سے ہی سیاسی راستہ نکل سکتا ہے۔ اب پی ٹی آئی قیادت کو بھی اس راستے پر لانے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔‘
میاں شمس نے کہا کہ ’اصل معاملہ مذاکرات کے نتائج تسلیم کرنے کا ہے۔ دونوں طرف اعتماد کا فقدان ہے حکومت پی ٹی آئی کی قیادت پر جبکہ تحریک انصاف حکومت پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہے۔
’ایک فریق نو مئی کے ملزمان کو ریلیف دینے سے ہچکچا رہا ہے تو دوسرا فریق طاقتور حلقوں کے ذریعے ہی راستہ نکالنے کی روش سے باہر آنے کو تیار نہیں۔ تمام مسائل کا حل پارلیمانی سیاست میں ہے۔‘
رہنما پیپلز پارٹی کے مطابق ’سب سیاسی جماعتوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اب بھی جو کچھ ہو رہا ہے وہ پارلیمنٹ کے ذریعے ممکن ہوا ہے۔ تمام سیاسی رہنماؤں کو اپنے کردار کو سمجھ کر پارلیمان کی بالادستی کو یقینی بنانا اور اس پر یقین کرنا ہو گا۔
’یہاں پر اہم معاملہ گارنٹی ہے، بانی پی ٹی آئی دھمکیوں، جلاو گھیراؤ، احتجاج اور تحریکوں کے ذریعے حکومت کو جھکانا چاہتے ہیں۔ اس رویے کی وجہ سے حکومتی عہدیدار بھی ان پر اعتماد نہیں کر رہے۔‘
سلمان غنی کے مطابق گارنٹیوں کا مسئلہ کبھی حل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کی سیاست میں جب بھی کسی لیڈر کو موقع ملتا ہے وہ سمجھوتہ توڑ کر کسی اور طرف چلا جاتا ہے۔
’یہی وجہ ہے کہ کسی جماعت کی قیادت ایک دوسرے پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ سیاست میں معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے ماضی میں بیان دے کر پی پی قیادت ججز بحالی کا معاہدہ توڑ چکی۔ لیکن پھر بھی نواز شریف ان کے ساتھ بیٹھے اور مذاکرات سے آگے بڑھے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اسی طرح حکومت کو عمران خان اور پی ٹی آئی کو حکومتی قیادت پر اعتماد کرتے ہوئے بات چیت کو آگے بڑھانا ہو گا۔
’جو ہو گیا سو ہو گیا اب ماضی کو بھلا کر پوری سیاسی قیادت کو ملکی و عوامی مسائل حل کرنے کے لیے سیاسی استحکام کے لیے کام کرنا ہو گا۔ کیونکہ ملک مسائل کو چھوڑ کر کوئی سیاسی قیادت کامیاب نہیں ہو سکتی۔‘
پارٹی تقسیم کا معاملہ
سلمان غنی کے بقول، ’تحریک انصاف کی قیادت جیل میں ہے، کارکنوں کے خلاف فیصلے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ بشریٰ بی بی اور علیمہ خان کے اختلافات بھی اب پوشیدہ نہیں رہے اس علاوہ پارٹی عہدیداروں میں بھی اتفاق رائے دکھائی نہیں دیتا۔
’ان وجوہات کی بنا پر پی ٹی آئی میں تقسیم برھتی جا رہی ہے۔ اگرچہ عمران خان کی شہرت تو شاید برقرار ہے لیکن تین بار احتجاج کی کال پر خیبر پختونخواہ کے علاوہ کسی صوبے سے حوصلہ افزا کارکن باہر نہیں نکلے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگلے سال پارٹی متحد ہوتی دکھائی نہیں دے رہی بلکہ تقسیم زیادہ ہوسکتی ہے۔
’ہر سیاسی جماعت بانی قیادت کے ساتھ ہی وابستہ ہوتی ہے بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور اب عمران خان کے جیل جانے سے پارٹی رہنما ایک دوسرے کی ہدایات پر عمل نہیں کرتے۔ اپوزیشن کے دوران تو ویسے ہی مسائل بڑھ جاتے ہیں یہی وجہ ہے پی ٹی آئی میں اختلافات آئندہ سال زیادہ ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔‘
شعیب شاہین کے مطابق ’ہماری پارٹی بانی پی ٹی آئی کی قیادت میں متحد ہے۔ ان کی ہر کال پرپارٹی عہدیدار اور کارکن پوری طرح عمل کرتے ہیں۔ لیکن اختلاف رائے ہر جماعت میں پایا جاتا ہے جس سے تقسیم کا رنگ دینا مناسب نہیں ہے۔‘
میاں شمس کے مطابق ’اطلاعات کے مطابق بانی پی ٹی آئی کے لیے ریاست کی جانب سے حتمی فیصلہ مارچ 2025 میں ہو گا۔ لہٰذا تحریک انصاف کے لیے اگلے سال بھی مسائل کم ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔ اگر پی ٹی آئی نے سیاسی حکمت عملی تبدیل نہ کی تو ان کے لیے سیاسی راستے بھی تنگ ہوتے رہیں گے۔‘
ٹرمپ کی صدارت اور عمران خان کے لیے ممکنہ ریلیف
نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری 2025 کو اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔ ان سے قریبی بعض لوگوں نے عندیہ دیا ہے کہ شاید وہ عمران خان کی رہائی یا ریلیف کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالیں۔
حکومت سے وابستہ عہدے داروں نے پہلے ہی تحریکِ انصاف پر تنقید شروع کر دی ہے کہ پہلے تو امریکی مداخلت کا الزام لگاتے تھے اور کہتے تھے امریکہ نے عمران خان کی حکومت گرائی، اب وہی عمران خان کی رہائی کے لیے امریکہ کے ’ترلے‘ کر رہے ہیں۔
کیا واقعی تحریکِ انصاف کو ٹرمپ کے دور میں کوئی راحت مل سکتی ہے؟
سیاسی تجزیہ کار اور نیوز اینکر عادل شاہ زیب نے اس سوال کے جواب میں انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جہاں تک امریکی مداخلت کے ذریعے رہائی سے امیدیں وابستہ کرنے کی بات ہے تو منطق یہ کہتی ہے کہ اگر ایسا ہوا تو عمران خان کی سیاست کو بہت بڑا ڈینٹ پڑے گا اور وہ بھی ان ڈیل زدہ سیاست دانوں کی فہرست میں شامل ہو جائیں گے جن پر تنقید کر کے وہ ایک پاپولر سیاست دان بنے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ ’تحریک انصاف کی سیاسی حکمت عملی اگر 2024 کی طرح 2025 میں بھی سمجھ بوجھ سے عاری اور جذبات پر مبنی رہی، تو یہ سال تحریک انصاف کے لیے مزید سختیاں لائے گا اور پارٹی مزید اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہے گی۔‘
ان کا کہنا تھا: ’اگر نئے سال میں بھی سول نافرمانی جیسی ناقص حکمت عملیاں ہی جاری رکھی گئیں تو پی ٹی آئی کا پھر خدا ہی حافظ۔
’ایسے میں 2025 بھی 2023 اور 2024 سے پھر مختلف تو ہو گا لیکن اس پیرائے میں کہ گذشتہ دو سالوں کی نسبت پارٹی کی مشکلات مزید بڑھیں گی۔‘
عادل شاہ زیب کے مطابق، ’اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ گذشتہ دو سالوں کی ناقص فیصلہ سازی اور سمجھ سے بالاتر سیاسی حکمت عملی سے پارٹی نے خود کو بند گلی میں دھکیلا اور پھر 26 نومبر کی فائنل کال سے پارٹی نے خود کو ’انتہائی مہارت‘ سے بند گلی کی آخری دیوار سے بھی لگا دیا۔‘
2025 نیک شگون لے کر آئے گا؟
کامران خان بنگش پی ٹی آئی کے سینئر رہنما اور پشاور ریجن کے جنرل سیکرٹری ہیں۔ وہ خیبر پختونخوا میں سابق وزیر اطلاعات و بلدیات بھی تھے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پی ٹی آئی اور پاکستان کے لیے 2025 کا سال نیک شگون ہو گا اور آئین کی بالادستی اور جمہوریت کی بحالی کے لیے سال 2025 ایک یادگار سال ثابت ہو گا۔
انہوں نے بتایا: ’پی ٹی آئی کے کارکنان اور قیادت نے ہر قسم کی مشکلات سہہ لیں اور عمران خان بھی پچھلے 500 دن سے زیادہ بھونڈے اور بےبنیاد کیسز میں پابند سلاسل ہے۔
’ہمارے متعدد کارکنان شہید ہوئے لیکن اس سب کے پاکستان پر پی ٹی آئی کے ہر کارکن کا اعتماد اور جذبہ چٹان کی طرح مضبوط ہے۔‘
کامران بنگش کے مطابق عمران خان کی قیادت میں پاکستان ایک فلاحی ریاست کی جانب گامزن ہو گا اور معاشی مضبوطی سے لے کر معاشرتی انصاف تک سال 2025 اہم ثابت ہو گا۔
انہوں نے بتایا کہ ’پی ٹی آئی سالِ نو میں اپنے مینڈیٹ کی واپسی تک اپنی پُرامن جدوجہد پایہ تکمیل تک پہنچا پائے گی اور قائد عمران خان کو وزیراعظم کی کرسی پر براجمان ہوتا ہوا دیکھ لیں گے۔‘