اطلاعات کے مطابق برطانیہ میں عمر قید کی سزا کاٹنے والے سارہ شریف کے والد پر کیے گئے حملے میں ان کی گردن اور چہرے پر زخم آئے ہیں۔ عرفان شریف اپنی بیٹی سارہ شریف کے قتل کے جرم میں جیل میں ہیں۔
اخبار ’دی سن‘ کے مطابق 43 سالہ عرفان شریف پر نئے سال کے دن ایچ ایم پی بلمارش جیل میں دو قیدیوں نے حملہ کیا۔ حملہ آوروں نے مبینہ طور پر ٹیونا فش کے ڈبے کے ڈھکن کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔
مانا جا رہا ہے کہ اس حملے کے باوجود عرفان شریف کو ہسپتال لے جانے کی ضرورت نہیں پڑی۔
ذرائع نے دی سن کو بتایا: ’عرفان پر ان کے سیل میں داخل ہونے والے دو قیدیوں نے حملہ کیا جس میں وہ طرح زخمی ہوئے۔ یہ منصوبہ بندی کے تحت ہونے والا حملہ تھا اور انہوں نے وقتی طور پر استعمال ہونے والا ہتھیار استعمال کیا جو ٹیونا کے ڈبے کے ڈھکن سے بنایا گیا۔
’ان کی گردن اور چہرے پر گہرے زخم آئے اور اب بھی ان پر نظر رکھی جا رہی ہے اور وہ کافی بری حالت میں ہیں۔
’وہ خوش قسمت تھے کہ زندہ بچ گیا۔ ان کے زخموں پر ٹانکے لگائے گئے ہیں اور ان کے چہرے پر مستقل نشانات رہیں گے جو اس حملے کی یاد دلاتے رہیں گے۔
’گارڈز نے ان کی حفاظت کی کوشش کی کیوں کہ یہ واضح تھا کہ اس کیس کی بڑی خبروں کے بعد وہ نشانے پر تھے۔ شریف نے جیل میں آنے کے بعد سر جھکا کر رہنے کی کوشش کی لیکن جلد ہی یہ بات پھیل گئی کہ وہ کون ہیں۔‘
جیل سروس کے ترجمان نے بتایا کہ ’پولیس یکم جنوری کو ایچ ایم پی بلمارش میں ایک قیدی پر حملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔ جب تک تحقیقات جاری ہے اس پر مزید تبصرہ کرنا مناسب نہیں ہوگا۔‘
میٹروپولیٹن پولیس کے ترجمان نے کہا کہ پولیس افسر’اس الزام کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ بلمارش میں ایک قیدی پر حملہ کیا گیا۔ 43 سالہ شخص کو زخم آئے تاہم ان سے ان کی زندگی خطرے میں نہیں۔‘
عرفان شریف اور سارہ کی سوتیلی ماں بینش بتول کو دسمبر میں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ انہیں کئی سال تک ’خوفناک تشدد‘ اور ’قابل مذمت‘ بدسلوکی کا مجرم قرار دیا گیا جس کا اختتام 10 سالہ بچی کے قتل پر ہوا۔
عدالت کو بتایا گیا کہ سارہ نے ’ناقابلِ تصور درد، اذیت اور پریشانی‘ برداشت کی، کیوں کہ اسے بار بار پیٹا گیا، جلایا گیا، کاٹا گیا اور جکڑا گیا۔ یہ سب ووکنگ، سرے میں خاندان کے گھر میں ہوا۔
10 اگست کو پاکستان فرار ہونے کے بعد شریف نے 101 پر کال کرکے سرے پولیس کو بتایا کہ وہ ظالم باپ‘ ہیں اور ان کا بیٹی کو مارنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن وہ غصے پر قابو نہ رکھ سکے۔
جلد ہی ظاہر ہوگیا کہ قتل سے پہلے کے مہینوں میں سارہ کو بار بار حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ووکنگ میں خاندان کے گھر میں قید، وہ بار بار مارپیٹ اور جلانے کا نشانہ بنیں۔ انہیں سکول چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور اپنی سوتیلی ماں کے کپڑے دھونے پر لگا دیا گیا جب کہ ان کے زخموں اور چوٹوں کو چھپانے کے لیے انہیں حجاب پہننے پر مجبور کیا گیا۔
پڑوسیوں نے چیخنے اور رونے کی آوازیں سننے کی شکایت کی اور ان کے پرائمری سکول کے اساتذہ نے ان کے زخموں کے پیچھے کی وجہ جاننے کی کوشش کی لیکن سماجی خدمات کے ادارے کو کو اس کم سن لڑکی کو درپیش ظلم و بربریت کی مکمل حقیقت کا علم نہیں تھا۔
جب یہ خاندان ووکنگ میں ایک نیم علیحدہ کونسل ہاؤس میں منتقل ہوا جہاں شریف کے بھائی فیصل ملک بھی ان کے ساتھ رہنے لگے تو نئے پڑوسی نے غور کیا کہ سارہ کبھی مسکراتے ہوئے نظر نہیں آئیں۔ انہیں بتایا گیا کہ وہ حجاب پہننے کی وجہ سے سکول میں مذاق اڑائے جانے کا شکار تھیں اس لیے اسے انہیں گھر پر تعلیم دی جا رہی ہے۔
اگرچہ بینش بتول نے دعویٰ کیا کہ حجاب پہننے کا فیصلہ لڑکی کی اسلام میں دلچسپی کی وجہ سے تھا، لیکن استغاثہ نے جیوری کو بتایا کہ یہ ان کے زخموں کو چھپانے کی ضرورت کی نشاندہی کرتا ہے۔
سارہ کو ایک خالی گھر میں ان کے ڈبل بیڈ پر مردہ پایا گیا اور ان کے جسم کے پاس ہاتھ سے لکھی ہوئی پرچی ملی جس پر لکھا تھا کہ ’یہ میں ہوں عرفان شریف، جس نے اپنی بیٹی کو زدوکوب کر کے قتل کیا۔
’میں خدا کی قسم کھاتا ہوں کہ میرا ارادہ اسے مارنے کا نہیں تھا لیکن میں خود پر قابو نہ رکھ۔ سکا۔ میں راہ فرار اختیار کر رہا ہوں کیوں کہ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔‘
پوسٹ مارٹم رپورٹ نے سارہ کی موت کی ہولناک حقیقت کو ظاہر کیا۔ سارہ کے جسم پر 71 تازہ زخم پائے گئے جن میں دماغ میں خون بہنا، پھیپھڑوں پر متعدد چوٹیں، گردن کی ایک ہڈی کا ٹوٹنا جو کم ہوتا ہے اور کولہوؤں کو استری سے جلائے جانے کی وجہ سے آنے والے بڑے زخم شامل تھے۔
عرفان شریف نے اعتراف کیا کہ انہوں نے ہاتھوں سے سارہ کا گلا دبایا۔ انہیں کرکٹ کے بلے، دھاتی چھڑی، اور موبائل فون سے پیٹا، یہاں تک کہ ان کے پیٹ پر بھی وار کیا جب وہ مرنے کے قریب تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سارہ کی موت کے دو گھنٹوں کے اندر خاندان کے تینوں افراد نے اگلے دن اسلام آباد کے لیے پروازیں بک کروائیں۔ بینش بتول کو فون پر اطمینان سے ٹریول ایجنسی سے تفصیلات طے کرتے ہوئے سنا گیا۔
صبح سویرے اسلام آباد پہنچنے پر شریف نے پولیس کو اپنے جرم کے بارے میں آگاہ کیا جس سے ایک بین الاقوامی تعاقب شروع ہوا، لیکن وہ برطانیہ واپس نہیں آئے۔ یہاں تک کہ پاکستانی حکام نے ان کے قریبی رشتہ داروں کو گرفتار کرنا شروع کیا تاکہ ان پر دباؤ ڈالا جا سکے۔
عدالت نے عرفان شریف کو کم از کم 40 سال قید اور بینش بتول کو 33 سال قید کی سزا سنائی۔
سارہ کے چچا، 29 سالہ فیصل ملک، جو سارہ کی موت کا سبب بننے یا اسے روکنے میں ناکامی کے مجرم پائے گئے، کو 16 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
اولڈ بیلی میں سزا سنانے کا عمل ٹیلی ویژن پر نشر کیا گیا۔ جج کیواناغ نے کہا کہ سارہ کی موت ’سالوں کی غفلت، بار بار حملوں، اور ایسی بدسلوکی کا نتیجہ تھی جسے صرف تشدد کہا جا سکتا ہے‘ جو زیادہ تر شریف کے ہاتھوں ہوا۔
انہوں نے شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’سارہ بہادر، نڈر اور خود اعتماد بچی تھی۔ وہ وہ تابع نہیں تھی جیسا آپ اسے بنانا چاہتے تھے۔ اس نے آپ کے خلاف کھڑے ہونے کی ہمت دکھائی۔
’مجھے کوئی شک نہیں کہ آپ کے انا اور خود پسندی کو اس طاقت سے بڑھاوا ملا جس کا اظہار آپ نے اس (سارہ) اور خاندان کے باقی افراد کے خلاف کیا۔‘
© The Independent