موسمیاتی تبدیلی پاکستان کا سب سے بڑا خطرہ

موسمیاتی تبدیلی کو اہمیت دینی چاہیے کیونکہ اس کے اثرات اور اس سے ہونے والے نقصانات مستقبل یا مستقبل قریب کی بات نہیں بلکہ یہ ہمارا حال ہے۔

20 ستمبر 2019 کی اس تصویر میں کراچی میں موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے حکومتی توجہ کے لیے منعقدہ مظاہرے میں شرکا پلے کارڈز اٹھائے ہوئے ہیں (اے ایف پی)

پاکستان ان 10 ممالک میں سے ایک ہے جو موسمی تبدیلیوں اور قدرتی آفات سے بہت زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔

گذشتہ ایک صدی میں پاکستان میں اوسط درجہ حرارت میں صفر اعشاریہ چھ تین ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ دیکھا گیا ہے اور کراچی کے ساحل کے ساتھ سمندر کی سطح میں ایک اعشاریہ ایک ملی میٹر کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اگرچہ 2006 سے 2015 تک سمندر کی سطح میں اضافہ تین اعشاریہ چھ ملی میٹر دیکھا گیا تھا۔

یورپی یونین کی ویب سائٹ انٹر ایکٹو کنٹری فچ کے مطابق پاکستان میں تاریخی طور پر بارشوں کا سلسلہ کافی گھمبیر رہا ہے۔

صدی کے آغاز میں بارشیں کم تھیں لیکن 1960 کے بعد سے بارشوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان کے خشک اور ساحلی علاقوں میں بارش میں 10 سے 15 فیصد کمی آئی ہے، جس کے باعث مینگروو ایکو سسٹم متاثر ہوا ہے، لیکن ساتھ ہی ملک میں تیز بارش میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے ساتھ ملک میں ہیٹ ویو کے دنوں میں بھی اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔

اس صدی کے آخر تک ملک میں درجہ حرارت میں تین سے چھ ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہونے کا امکان ہے جبکہ سمندر کی سطح میں 60 سینٹی میٹر تک اضافہ ہونے کا خدشہ ہے، جس کے باعث کیٹی بندر اور دریائے سندھ کا ڈیلٹا نمکین ہو جائے گا۔

وزارت موسمیاتی تبدیلی نے پچھلی حکومت کی مدت ختم ہونے سے قبل موسمیاتی تبدیلی سے رونما ہونے والی مسائل اور ان کے اثرات کے حوالے سے نیشنل اڈاپٹیشن پلان مرتب کیا۔

اس میں کہا گیا کہ موسمیاتی تبدیلی کا اثر ہر ایک پر ایک جیسا نہیں ہو گا بلکہ یہ انفرادی فرد کو اور طریقے سے، کاروبار کو مختلف، کمیونٹی کو مختلف اور تنظیموں اور حکومتوں کو مختلف طریقے سے متاثر کرے گی۔

موسمیاتی تبدیلی کو اہمیت دینی چاہیے کیونکہ اس کے اثرات اور اس سے ہونے والے نقصانات مستقبل یا مستقبل قریب کی بات نہیں بلکہ یہ ہمارا حال ہے۔

گذشتہ سال ورلڈ بینک نے کہا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث پاکستان میں گرمی کی شدت اور سیلاب اس بات کا واضح عندیہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے پاکستان کو ترقیاتی پروگرام اور غربت میں کمی کرنے کی کوششوں میں مشکلات ہوں گی۔

موسمیاتی تبدیلی کے باعث آفات سے 1700 افراد جان گنوا بیٹھے جبکہ 80 لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔ اس کے علاوہ ملک کو 30 ارب ڈالر کا انفراسٹرکچر، فصلوں اور مویشیوں کے کھونے سے معاشی نقصان ہوا۔  

ورلڈ بینک کی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے ترقیاتی پروگرام اور پالیسیاں بنانی ہوں گی۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ شدید موسمیاتی تبدیلی، ماحولیاتی خرابی اور ہوا میں آلودگی سے پاکستان میں 2050 تک ملک کے جی ڈی پی میں 18 سے 20 فیصد کمی ہو سکتی ہے۔ یہ ایک بہت بڑا نمبر ہے جس سے ملک کی ترقی رک جائے گی۔ 

اس میں مزید کہا گیا کہ موسمیاتی تبدیلی ایسا خطرہ ہے جو اس وقت ہمیں درپیش ہے اور جو آنے والی نسلوں کی زندگی تبدیل کر کے رکھ دے گا۔

یہ ایسا وقت ہے جب حکومت کو سنگینی سے اس سے نمٹنے اور اس کے اثرات کو کم سے کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اس سے پہلے ہم اس موڑ پر پہنچ جائیں جہاں سے واپسی کا راستہ نہ ہو۔

کارنیجی انٹرنیشنل کے مطابق بیسویں صدی کے وسط میں ملک میں ایک ڈگری سینٹی گریڈ موسم گرم ہونے کے باعث سالانہ فی کس آمدنی میں 1.4 فیصد کمی واقع ہوئی، لیکن اس سے بھی تشویش ناک بات یہ کہ موسم میں شدت میں کمی بھی واقع ہو جائے تو اس سے فی کس آمدنی میں کمی برقرار رہتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ملکی معاشی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ 

سائنس دانوں کا اتفاق ہے کہ انسانی سرگرمیوں کے باعث موسمیاتی تبدیلی اور ال نینیو مل کر دنیا کے کئی خطوں پر اس طرح اثر انداز ہو گا، جو پہلے نہیں دیکھا گیا۔

امریکی نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن میں سینیئر تحقیق دان ڈاکٹر مائیک میک فیڈن کا کہنا ہے کہ اگر تاریخ کو دیکھا جائے تو ال نینیو ہر چار یا پانچ سال بعد آتا ہے اور وقت ہے کہ اب ال نینیو آئے، تاہم ایسا ال نینیو جو بہت شدت کا ہو ہر سال 10 سے 15 سال بعد آتا ہے۔ یہ بہت حیرت کی بات ہو گی کہ اگر اس سال آنے والا ال نینیو بہت زیادہ شدت کا ہو کیونکہ آخری بار شدت والا ال نینیو 2015 اور 2016 میں آیا تھا۔

’پاکستان کے پاس آپشن ہے کہ آیا وہ اپنے وجود میں آنے کے سو سال بعد موسمیاتی تبدیلی کو مدنظر رکھتے ہوئے ماحول دوست اقدامات اٹھا کر معاشی کامیابی کی مثال بننا چاہتا ہے یا نہیں۔ ہمارا سیارہ 20 سال پہلے والا نہیں رہا اور موسمیاتی تبدیلی کے باعث اس میں تیزی سے تبدیلیاں آ رہی ہیں۔‘

ایک اندازے کے مطابق 2035 اور 2044 تک 50 لاکھ افراد دریاؤں میں طغیانیوں سے متاثر ہوں گے اور 2070 سے 2100 تک ہر سال 10 لاکھ افراد ساحلی پٹیوں پر سمندر پانی کی وجہ سے متاثر ہوں گے۔

موسمی تبدیلی سے خدشہ ہے کہ انسانی صحت پر فضائی اور آبی آلودگی کے اثرات زیادہ ہوں گے، انتہائی گرمی کے باعث مزدور طبقے کی کارکردگی پر اثر ہو گا، پانی میں کمی ہو گی اور ہائیڈرو پاور پروڈکشن میں کمی آئے گی۔

آج کل کے شدید موسمیاتی واقعات کو دیکھیں تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث دنیا میں تبدیلی آ رہی ہے اور اس کا اثر مستقبل میں کیا ہو گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ