پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سیکرٹری جنرل سید نیئر حسین بخاری کے نئے عام انتخابات کے بیان پر مسلم لیگ ن کی رہنما عظمیٰ بخاری کا کہنا ہے کہ حکومت کہیں نہیں جا رہی۔
صوبہ پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری کہتی ہیں کہ ’یہ نیئر بخاری کی ذاتی رائے ہے کیونکہ ان کے پاس تو کوئی ایسا فورم نہیں ہے کہ وہ ہمیں بتا سکیں، ان کی پارٹی کی طرف سے گفتگو ان کی پارٹی کی لیڈر شپ کو کرنی چاہیے۔‘
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نیر بخاری کے بیان کے بعد سیاسی عدم استحکام بڑھے گا لیکن حکومت کہیں نہیں جا رہی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل سید نیئر حسین بخاری نے ایک نجی چینل پر انٹرویو کے دوران کہا کہ ’ملک میں بڑھتی ہو ئی سیاسی کشیدگی کے دوران وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ قومی اسمبلی کو تحلیل کر کے نئے انتخابات کرائے۔‘
ان کا کہنا تھا: ’اگر حکومت کو خطرہ محسوس ہوتا ہے تو اسے اسمبلی تحلیل کر کے نئے انتخابات کروانے چاہئیں۔‘
انہوں نے مشورہ دیا کہ ’وزیر اعظم شہباز شریف، صدر آصف علی زرداری کو اسمبلی تحلیل کرنے اور انتخابات کی راہ ہموار کرنے کے لیے ایڈوائزری بھیجیں۔‘
نیر بخاری نے اس انٹرویو میں اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ ’مسلم لیگ ن پی پی پی کے ساتھ اپنے مسائل کے بارے میں بات نہیں کرتی۔‘
ان کا کہنا تھا: ’پیپلز پارٹی پارلیمنٹ میں حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے تیار ہے، لیکن اسے کچھ بامقصد پیش کرنا چاہیے۔ صدر زرداری نے بارہا بات چیت میں ثالثی کرنے اور تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار کیا ہے، لیکن بات چیت میں شامل ہونے کے لیے آمادگی ہونی چاہیے۔‘
انہوں نے خبردار کیا کہ ’سیاسی نظام کی کسی بھی طرح کی پٹڑی سے اترنے سے ملک کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘
پی پی پی رہنما کا کہنا تھا کہ ’پی پی پی نے تحفظات کے ساتھ انتخابی نتائج کو قبول کیا۔
’اگر ہم نے مسلم لیگ ن کا ساتھ نہ دیا ہوتا تو کیا آج پارلیمنٹ اور چیف ایگزیکٹو کا دفتر چلتا؟‘
پنجاب کی وزیر اطلاعات و نشریات عظمیٰ بخاری نے نیر حسین بخاری کے بیان کے حوالے سے انڈپینڈںٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’یہ نیر بخاری کی ذاتی رائے ہے کیونکہ ان کے پاس تو کوئی ایسا فورم نہیں ہے کہ وہ ہمیں بتا سکیں ان کی پارٹی کی طرف سے گفتگو ان کی پارٹی کی لیڈر شپ کو کرنی چاہیے اور جب وہ ہماری لیڈر شپ سے بات کریں گے تو پھر ہم دیکھ لیں گے کہ ہم نے کیا کرنا ہے۔ فی الحال حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔‘
عظمیٰ بخاری نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’ویسے پیپلز پارٹی ہمارے اتحادی بھی ہیں لیکن انہیں حزب اختلاف کا کردار بھی ادا کرنا ہوتا ہے۔
سارے آئینی عہدے لے کر بڑے بڑے محلوں میں یہ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں جبکہ ہمیں انہوں نے عام آدمی کے مسائل حل کرنے کے لیے آگ میں جھونکا ہوا ہے اور پھر اس کے اندر وہ گھی ڈالنے سے بھی باز نہیں آتے۔‘
اس صورت حال کے حوالے سے سینئیر تجزیہ نگار سلیم بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’پاکستان پیپلز پارٹی وکٹ کے دونوں طرف کھیلتی ہے۔
’ایک سانس میں وہ ن لیگ کے اتحادی بھی ہیں تو دوسری طرف انتخابات کے بعد پی ٹی آئی کو بھی پیش کش کرتے دکھائی دیے کہ آئیے ہم مل کر حکومت بناتے ہیں۔‘
سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ ’نیئر بخاری پارٹی کے سیکرٹری جنرل ہیں اور ہو سکتا ہے انہیں کہیں سے یہ بیان دینے کا اشارہ ملا ہے۔ ان کے بیان سے اس بات کو بھی تقویت ملتی ہے کہ عمران خان کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ کے دل میں کوئی نرم گوشہ پیدا ہوا ہے۔
’لیکن میں اس تاثر کی نفی کرتا ہوں کیونکہ ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی نے اپنی بریفنگ میں واضح طور پر کہا گیا کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کا اقتدار میں آنے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔‘
ان کاکہنا تھا کہ ’پیپلز پارٹی بھی یہ سارا منظر نامہ دیکھ رہی ہے وہ حکومت کا حصہ ہے بھی اور نہیں بھی۔
’نیئر بخاری کو میں ذاتی طور پر بھی جانتا ہوں اس لیے ان کے اس بیان کو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ ایک آدمی کی رائے ہے یہ کیلکیولیٹڈ بیان ہے اور یہ حکومت وقت کو دبائے رکھنے کے لیے ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سلیم بخاری کے خیال میں جب تک حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی ’کُٹی‘ نہیں ہوتی اس حکومت کو کوئی نہیں ہلا سکتا۔ یہی ہماری تاریخ ہے اور یہی رہے گی کیونکہ دشمن مشترکہ ہے اس لیے یہ ’کُٹی‘ مجھے ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’عمران خان کو نہ ن لیگ چاہتی ہے نہ اسٹیبلشمنٹ اور سچ پوچھیں تو پیپلز پارٹی بھی انہیں نہیں چاہتی کیونکہ ان کا تجربہ بھی عمران کے ساتھ کچھ اچھا نہیں تھا۔
’ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب تک حکومت وقت اور اسٹیبلشمنٹ میں صلح ہے تب تک حکومت میں کوئی بنیادی تبدیلی دکھائی نہیں دیتی۔‘
گذشتہ ہفتے بانی پی ٹی آئی عمران خان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ان کی پارٹی’ فوجی قیادت سے بات چیت کے لیے تیار ہے اور فوجی قیادت کو پی ٹی آئی سے مزاکرات کے لیے اپنا نمائندہ مقرر کرے۔‘
اس سے کچھ دن پہلے پی ٹی آئی رہنماؤں نے ایک یہ بیان بھی دیا تھا کہ ’پی ٹی آئی کا فوجی قیادت سے رابطہ ہو گیا ہے‘ اور عمران خان کا پیغام ان تک پہنچا دیا گیا ہے تاہم فوجی اور حکومتی ذرائع سے اس بات کی تصدیق نہیں ہو پائی۔
اسی تناظر میں گذشتہ ہفتے سابق وزیر اعظم شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے رہنما راجہ پرویز اشرف نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران کہا کہ ’وزیراعظم کو حزب اختلاف سے بات چیت کا دروازہ کھولنا چاہیے جس کے بعد سیاسی عدم استحکام میں اضافہ ہوا اور نئے انتخابات اور قومی حکومت کے حوالے سے افواہوں نے زور پکڑ لیا۔‘