متوقع کرم امن معاہدہ: ’زیادہ تر نکات پر اتفاق‘

کرم میں جاری پرتشدد کشیدگی کو ختم کرنے اور امن قائم کرنے کے لیے صوبائی حکومت کے تشکیل کردہ جرگے کا حتمی معاہدہ کل (منگل) متوقع ہے۔

چھ دسمبر، 2024 کو کمشنر کوہاٹ معتصم باللہ کی سربراہی میں کرم گرینڈ جرگہ کا ایک منظر (دفتر کمشنر کوہاٹ)

خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں جاری پرتشدد کشیدگی کو ختم کرنے اور امن قائم کرنے کے لیے صوبائی حکومت کے تشکیل کردہ جرگے کا حتمی معاہدہ آج منگل کو متوقع ہے۔

جرگے میں فریقین کے مابین معاہدے کی تفصیلات انڈپینڈنٹ اردو کو موصول ہوئی ہیں، جن کا سرکاری سطح پر ابھی تک اعلان نہیں کیا گیا۔

انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود معاہدے کے نکات کی بعض جرگہ اراکین نے تصدیق کی ہے، البتہ ان میں سے چند پر حتمی فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔

کرم کی تحصیل لوئر کرم کے علاقے اوچت میں پاڑہ چنار جانے والی گاڑیوں کے قافلے پر 21 نومبر کو حملے میں کم از کم 42 افراد جان سے گئے تھے۔

اگلے روز مشتعل مظاہرین نے لوئر کرم کے مرکزی بازار بگن میں دکانیں اور قریبی گھر جلا دیے تھے، جس کے بعد علاقے میں فریقین کے مابین کشیدگی بڑھ گئی تھی۔ علاقے کو جانے والی شاہراہ بھی اس وقت سے بند ہے جس سے اشیا خوردونوش اور ادویات کی کمی پیدا ہوئی ہے۔

اس تنازعے پر خیبر پختونخوا حکومت نے صوبائی ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف کی سربراہی میں ایک جرگہ تشکیل دیا گیا، جس کی اب تک کئی نشستیں ہو چک ہیں۔

متوقع معاہدے کے اہم نکات کیا ہیں؟

جرگے میں فریقین کے مابین مبینہ طور پر 14 نکاتی معاہدے پر تقریباً اتفاق ہو چکا ہے، جس میں پہلا نکتہ مقامی امن کمیٹی کے حوالے سے ہے۔

معاہدے کے مطابق مقامی امن کمیٹی کسی بھی تنازعے کی صورت میں اسے حل کرے گی اور ناکامی کی صورت میں ضلعی کمیٹی معاملہ دیکھے گی۔

مقامی کمیٹیوں کی ناکامی کی صورت میں گرینڈ جرگہ، حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مداخلت کریں گے۔

معاہدے کا ایک اہم نکتہ بھاری اسلحہ جمع کرنا اور مورچے مسمار کرنا ہے۔ اس کا فیصلہ صوبائی کابینہ اور اپیکس کمیٹی پہلے ہی کر چکے ہیں۔

بیرسٹر محمد علی سیف نے گذشتہ روز ایک مقامی ہوٹل میں میڈیا کے نمائندوں کو بتایا تھا کہ اسلحہ جمع کرنا اور مورچے مسمار کرنا حکومت کا حتمی فیصلہ ہے۔

ان کے مطابق فریقین کو یکم فروری، 2025 تک کا وقت دیا گیا ہے اور اس دوران اپیکس کمیٹی کے فیصلے کے مطابق فریقین بھاری اسلحہ جمع کروائیں گے۔

انہوں نے اسلحے کے بارے میں مزید بتایا کہ ’بھاری اسلحے سے مراد کلاشنکوف وغیرہ نہیں بلکہ اینٹی ایئر کرافٹ گنز، میزائل اور آر پی جیز ہیں جن کا استعمال کیا جاتا ہے اور اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس کے استعمال پر سخت کارروائی ہو گی۔‘

معاہدے کا ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ بنکرز کو ایک ماہ کے اندر ختم کیا جائے گا اور سڑکوں اور شاہراہوں کی حفاظت یقینی بنائی جائے گی۔

کرم میں فریقین نے اپنے اپنے علاقوں میں مورچے قائم کر رکھے ہیں، جہاں سے ایک دوسرے کے خلاف بھاری اسلحے کا استعمال کیا جاتا ہے۔

علاقے کی مرکزی شاہراہ ٹل پاڑہ چنار گذشتہ تقریباً دو ماہ سے بند ہے جس کی وجہ سے اپر اور لوئر کرم کے علاقے صدہ کے رہائشیوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

اسی شاہراہ کو محفوظ بنانے کے لیے بیرسٹر سیف نے بتایا کہ ’ہم نے 400 مزید پولیس اہلکار بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا جس پر کام شروع ہو چکا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ پولیس اور فرنٹیئر کور (ایف سی) کے دو دستے بھی تعینات کے گئے ہیں، جبکہ مرکزی شاہراہ پر چیک پوسٹیں قائم کی جائیں گی۔

معاہدے میں ایک اور نکتہ علاقے میں کسی قسم کی کارروائی کے حوالے سے ہے، جس میں لکھا گیا ہے کہ کسی بھی واقعے کی صورت میں قریبی گاؤں کے رہائشی ذمہ دار ہوں گے۔

تاہم اس نکتے پر ایک فریق نے اعتراض کیا ہے۔ جرگے کے رکن اور سابق رکن قومی اسمبلی فخر زمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس پہلو پر بات کی جائے گی کہ اگر گاؤں کے لوگوں نے خود کو بے گناہ ثابت کیا تو پھر کسی قسم کی کارروائی نہیں ہو گی۔

فخر زمان نے بتایا: ’اس نکتے پر مزید بحث آج اور کل کی جائے گی جبکہ باقی معاہدے کے جو تفصیل انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے، وہی ہیں۔‘

کرم میں فرقہ ورانہ فسادات کی ایک بڑی وجہ زمینی تنازعات بھی ہیں اور اس بات کا اقرار وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا امین گنڈاپور نے صوبائی اسمبلی میں بھی کیا تھا۔

محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا کے مطابق کرم میں تقریباً آٹھ مقامات پر زمینی تنازعات ہیں جن کو شاملاتی زمینیں کہا جاتا ہے۔ معاہدے کے مطابق اراضی تنازعات کو اراضی کمیشن اور رواج کرم (قبائلی قانون) کے تحت حل کیا جائے گا۔

اس حوالے سے فخر مان نے بتایا: ’بات کی جائے گی کہ جو زمینی تنازعات مقامی رواج کے مطابق حل ہو سکتے ہیں وہ مقامی رواج کے مطابق حل ہوں گے اور باقی اراضی کمیشن کریں گے۔‘

معاہدے کا ایک اور نکتہ سوشل میڈیا اور نفرت انگیز تقاریر کرنے والوں حوالے سے ہے، جس کے مطابق ایسا افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

معاہدے میں لکھا گیا ہے کہ اس امن معاہدہ کی خلاف ورزی کرنے والوں کو کوئی بھی قبیلہ پناہ نہیں دے گا۔

جرگہ ممبران کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ایک فریق کی جانب سے 14 نکات پر مشتمل معاہدے پر دستخط ہو گئے ہیں، تاہم دوسرے فریق کے دستخط باقی ہیں۔

جرگے کے سربراہ بیرسٹر محمد علی سیف کے مطابق فریقین کے درمیان عمومی طور پر اتفاق رائے ہو چکا ہے، لیکن صرف چند نکات پر ایک فریق نے دو دن کا وقت مانگا ہے۔

انہوں نے بتایا: ’معاہدے پر دستخط مشاورت مکمل ہونے کے بعد منگل کو کیے جائیں گے۔‘

ضلع کرم کے ڈپٹی کشمنر جاوید اللہ محسود کو جب ذرائع سے ملنے والے معاہدے کے نکات بھیجے گئے تو انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ایک دو نکات پر مشاورت جاری ہے اور اس کے بعد معاہدہ منظر عام پر لایا جائے گا۔‘

معاہدے کے نکات کی تصدیق کرتے ہوئے مقامی رہنما جلال حسین بنگش نے امید ظاہر کی کہ یہ معاہدہ کرم میں امن کے لیے سنگ میل ثابت ہو گا۔ 

جلال بنگش نے بتایا، ‘ہم نے تمام تحفظات دور کیے ہیں اور اب نکات پر تقریباً اتفاق رائے ہوچکا ہے۔ کل اس پر امید ہے دونوں فریقین دستخط کریں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’سوشل میڈیا پر من گھڑت اور اشتعال انگیزی سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اصل معاملات پر توجہ دیں کیونکہ کرم کی اکثریت امن کی خواہاں ہیں۔‘
 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان