خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں جاری پرتشدد کشیدگی کے خاتمے کے حوالے سے بدھ کو صوبائی حکومت کے تشکیل کردہ جرگے میں فریقین کے مابین امن معاہدہ طے پا گیا ہے۔
صوبائی حکومت کے ترجمان اور جرگہ کنوینیئر بیرسٹر ڈاکٹر محمد علی سیف نے معاہدے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ دونوں فریقین نے معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔
بیرسٹر سیف کے مطابق ’ایک فریق کی جانب سے چند دن پہلے دستخط ہو گئے تھے اور اسلحہ کی حوالگی، بنکرز کو مسمار کرنے پر دونوں فریقین متفق ہو گئے۔‘
امن معاہدے پر مبارک باد دیتے ہوئے بیرسٹر سیف نے کہا کہ ’امن معاہدے سے کرم میں امن اور خوش حالی کا نیا دور شروع ہوگا۔‘
کرم گرینڈ جرگے کے رکن عبدالولی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ معاہدے پر دستخط ’ہم نے کر دیے جبکہ چند اراکین کے خاندان میں فوتگی ہوئی تھی، تو ان کے دستخط باقی ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’مرکزی شاہراہ ٹل پاڑا چنار روڈ، اسلحے کی حوالگی اور بنکرز کو مسمار کرنے پر بھی فریقین متفق ہیں۔‘
جرگہ کے ایک اور رکن ڈاکٹر عبدالقادر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جرگے میں اس بات پر بھی اتفاق ہوا ہے کہ بگن میں نقصانات کا ازالہ حکومت کرے گی۔
اسی طرح ڈاکٹر عبدالقادر نے یہ بھی کہا کہ اپیکس کمیٹی کے فیصلے کے مطابق 15 دن کے اندر اسلحہ بھی حکومت کے حوالے کیا جائے گا۔
کرم کی تحصیل لوئر کرم کے علاقے اوچت میں پاڑہ چنار جانے والی گاڑیوں کے قافلے پر 21 نومبر کو حملے میں کم از کم 42 افراد جان سے گئے تھے۔
جس کے بعد اگلے ہی روز مشتعل مظاہرین نے لوئر کرم کے مرکزی بازار بگن میں دکانیں اور قریبی گھر نذر آتش کر دیے تھے، جس کے بعد علاقے میں فریقین کے مابین کشیدگی بڑھ گئی تھی۔
علاقے کو جانے والی شاہراہ بھی اس وقت سے بند ہے جس سے اشیا خورد و نوش اور ادویات کی کمی پیدا ہوئی ہے۔
اس تنازعے پر خیبر پختونخوا حکومت نے صوبائی ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف کی سربراہی میں ایک جرگہ تشکیل دیا تھا اور اسی جرگے کی کوشش سے یکم جنوری 2025 کو امن معاہدے پر دستخط کر دیے گئے ہیں۔
امن معاہدے کے نکات کیا ہیں؟
معاہدے کے مطابق مقامی امن کمیٹی کسی بھی تنازعے کی صورت میں اسے حل کرے گی اور ناکامی کی صورت میں ضلعی کمیٹی معاملہ دیکھے گی۔
مقامی کمیٹیوں کی ناکامی کی صورت میں گرینڈ جرگہ، حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مداخلت کریں گے۔
معاہدے کا ایک اہم نکتہ بھاری اسلحہ جمع کرنا اور مورچے مسمار کرنا ہے۔ اس کا فیصلہ صوبائی کابینہ اور ایپکس کمیٹی پہلے ہی کر چکی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بیرسٹر محمد علی سیف نے گذشتہ روز ایک مقامی ہوٹل میں میڈیا کے نمائندوں کو بتایا تھا کہ اسلحہ جمع کرنا اور مورچے مسمار کرنا حکومت کا حتمی فیصلہ ہے۔
ان کے مطابق فریقین کو یکم فروری، 2025 تک کا وقت دیا گیا ہے اور اس دوران ایپکس کمیٹی کے فیصلے کے مطابق فریقین بھاری اسلحہ جمع کروائیں گے۔
انہوں نے اسلحے کے بارے میں مزید بتایا کہ ’بھاری اسلحے سے مراد کلاشنکوف وغیرہ نہیں بلکہ اینٹی ایئر کرافٹ گنز، میزائل اور آر پی جیز ہیں جن کا استعمال کیا جاتا ہے اور اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس کے استعمال پر سخت کارروائی ہو گی۔‘
معاہدے کا ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ بنکرز کو ایک ماہ کے اندر ختم کیا جائے گا اور سڑکوں اور شاہراہوں کی حفاظت یقینی بنائی جائے گی۔
کرم میں فریقین نے اپنے اپنے علاقوں میں مورچے قائم کر رکھے ہیں، جہاں سے ایک دوسرے کے خلاف بھاری اسلحے کا استعمال کیا جاتا ہے۔
معاہدے کے نکات میں یہ بھی شامل ہے کہ علاقے میں کسی قسم کی کارروائی کی صورت میں قریبی گاؤں کے رہائشی ذمہ دار ہوں گے۔
کرم میں فرقہ ورانہ فسادات کی ایک بڑی وجہ زمینی تنازعات بھی ہیں اور اس بات کا اقرار وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا امین گنڈا پور نے صوبائی اسمبلی میں بھی کیا تھا۔
محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا کے مطابق کرم میں تقریباً آٹھ مقامات پر زمینی تنازعات ہیں جن کو شاملاتی زمینیں کہا جاتا ہے۔ معاہدے کے مطابق اراضی تنازعات کو اراضی کمیشن اور رواج کرم (قبائلی قانون) کے تحت حل کیا جائے گا۔
معاہدے کا ایک اور نکتہ سوشل میڈیا اور نفرت انگیز تقاریر کرنے والوں کے حوالے سے ہے، جس کے مطابق ایسا افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
معاہدے میں لکھا گیا ہے کہ اس امن معاہدہ کی خلاف ورزی کرنے والوں کو کوئی بھی قبیلہ پناہ نہیں دے گا۔
ضلع کرم میں 2007 سے 2011 کے درمیان ہونے والے فرقہ ورانہ فسادات کے دوران مری میں ایک معاہدہ فریقین کے مابین ہوا تھا جس کو ’مری معاہدہ‘ کہا جاتا ہے۔
ابھی گرینڈ جرگہ میں معاہدے میں ایک نکتہ یہ بھی شامل کیا گیا ہے کہ مری معاہدہ اپنی جگہ قائم رہے گا۔
تاہم معاہدے کے مطابق فاٹا انضمام کے بعد قبائلی اضلاع حالات کے مطابق معروضی زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے مری معاہدے پر عمل کرنے کے پابند ہوں گے۔
ٹل پاڑہ چنار روڈ کے حوالے سے معاہدے میں لکھا گیا ہے کہ تمام سرکاری سڑکوں پر کسی قسم کی کارروائی کرنے پر حکومت ایکشن لے گی جبکہ کسی بھی شرپسند کو علاقے کے لوگ پناہ یا قیام و طعام میں معاونت نہیں کریں گے۔
معاہدے کے مطابق جن علاقوں سے بجلی، ٹیلی فون یا کیبل گزرتی ہے یا مستقبل میں گزاری جائیں گی یا روڈ تعمیر کرنے کی ضرورت پڑی، تو فریقین کی جانب سے بھرپور تعاون کیا جائے گا۔
معاہدے کے ایک نکتے میں لکھا گیا ہے کہ آئندہ فریقین پناہ میں لیے گئے افراد کا ہر صورت تحفظ یقینی بنائیں گے اور لاشوں کی بے حرمتی نہیں کی جائے گی۔
سرکاری ملازمین کے حوالے سے معاہدے میں کہا گیا ہے کہ ضلع بھر میں احسن طریقے سے خدمات کی سرانجام دہی میں مشران پشتون ولی دستور کے مطابق مہمان کی حیثیت سے دیکھ بھال کریں گے۔