واپس جانے والے افغان پناہ گزین مشکلات کا شکار، بحالی کے عمل میں تاخیر

پاکستان سے واپس جانے والے افغان پناہ گزینوں کو افغانستان میں رہائش اور روزگار کے علاوہ کئی معاشرتی مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔

پاکستان سے افغان پناہ گزینوں کی واپسی ایک ایسا انسانی المیہ ہے، جس نے لاکھوں خاندانوں کی زندگیوں کو غیر یقینی حالات میں دھکیل دیا ہے۔

برسوں پہلے پاکستان میں پناہ لینے والے افغان پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد وقتاً فوقتاً اپنے ملک واپس لوٹ رہے ہیں، جہاں انہیں مختلف مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا ہے اور ان کے روشن مستقبل کے امکانات مزید محدود ہو رہے ہیں۔

پچھلے چار دہائیوں سے افغانستان میں جنگ اور غیر ملکی مداخلت کی وجہ سے لاکھوں افغان شہری اپنے ملک کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے، جن میں سے ایک بڑی تعداد نے پاکستان میں پناہ لی اور یہاں ایک نئی زندگی کی شروعات کی، تعلیم حاصل کی، مختلف روزگار سے منسلک ہوئے اور سماجی و معاشی نظام میں اپنا کردار ادا کیا۔

پھر یوں ہوا کہ  اکتوبر 2023 میں پاکستان کی نگران حکومت کی نئی پالیسی نے لاکھوں افغان پناہ گزینوں کے لیے مشکلات کھڑی کر دیں۔

اگرچہ  حکومت نہ یہ واضح کیا تھا کہ غیرملکی تارکین وطن کے لیے بنائی گئی ون ڈاکومنٹ رجیم کی پالیسی محض افغان پناہ گزینوں  کے لیے نہیں تاہم مذکورہ پالیسی سے سب سے زیادہ متاثر افغان باشندے ہی ہوئے۔ 

پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کے لیے یہ اعلان کسی دھچکے سے کم نہیں تھا اور حکومتی کریک ڈاؤن کے دوران گرفتاریاں،  ہراسانی اور رشوت ستانی کی رپورٹس نے ان کے لیے حالات مزید مشکل بنا دیے۔

اقوام متحدہ کے مطابق نومبر 2023 کے بعد ساڑھے سات لاکھ سے زیادہ افغان پناہ گزین پاکستان سے واپس جا چکے ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس اقدام کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پناہ گزینوں کو ایک ایسے ملک واپس بھیجنا جہاں انسانی زندگی خطرے میں ہو غیرانسانی اورغیر قانونی فعل ہے۔

پاکستان میں کئی دہائیاں گزارنے کے بعد افغانستان پہنچنے پر ان پناہ گزینوں کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ان میں بے روزگاری، رہائش کا فقدان، سرد موسم اور بنیادی سہولیات کی کمی شامل ہیں۔

سال سے زیادہ وقت گزرنے کے باوجود اب بھی کئی خاندان کھلے آسمان تلے یا خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔  خصوصاً خواتین کو تعلیم و ملازمت کے مواقع کی عدم دستابی کی وجہ سے  دشواریوں کا سامنا ہے۔

افغان پناہ گزینوں کے لیے یہ دوسری سب سے بڑی ہجرت ہے اور اب وہ اپنے ہی ملک میں پناہ گزینوں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

فدا محمد جو حال ہی میں پاکستان کے ضلع پشین سے قندھار پہنچے ہیں، نے انڈیپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے پاس سر چھپانے کے لیے چھت ہے نہ ہی پیٹ بھر کے خوراک۔

’میرے بچے 10 یا 50 افغانی کے عوض مزدوری کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں۔‘

فدا محمد نے حکومت اور این جی اوز سے امداد کی اپیل کی تاکہ وہ اپنے پانچ بچوں کو تعلیم دلوا سکیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

طالبان حکومت نے افغانستان واپس جانے والے افغان مہاجرین کے لیے افغانستان میں زمینیں فراہم کرنے اور عارضی پناہ گاہیں بنانے کا اعلان کیا ہے اور اس سلسلے میں ملک کے 29 صوبوں میں 30 سے زیادہ سکیموں میں زمینیں دینے کا منصوبہ بھی شامل ہے، جب کہ صوبہ قندهار کے ضلع دامان میں ایک رہائشی منصوبے پر کام جاری ہے، جو 74 سو سے زیادہ ایکڑ رقبے پر مشتمل ہے اور جس میں ہسپتال، مدرسے، سکول، مساجد، پارک، کرکٹ میدان اور ایک کمیونیٹی ہال بنائے جا رہے ہیں۔  

ضلع دامان کے علاوہ طالبان حکومت نے افغانستان کی وادی پنج شیر اور مرکزی صوبے بامیان جیسے غیر پشتون علاقوں کے علاوہ غزنی اور خوست کے صوبوں میں بھی پاکستان سے آنے والے شہریوں کو سرکاری زمینیں الاٹ کرنے کے لیے اقدامات شروع کیے ہیں۔

تاہم اس منصوبے کی سست رفتاری کے باعث اب تک ہزاروں خاندان امداد کے منتظر ہیں۔

افغان پناہ گزینوں کی واپسی کے اثرات ان کی زندگیوں کے ساتھ ساتھ خطے کی سیاست اور معیشت پر بھی مرتب ہوں گے۔ ان افراد کو دوبارہ زندگی کی شروعات کے لیے عالمی برادری کی مدد کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر اداروں کو فوری اقدامات کرنے چاہیے تاکہ مہاجرین کو سردی کے موسم میں مزید مشکلات سے بچایا جا سکے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا