سوشل میڈیا اور توجہ میں کمی کا مسئلہ، ایسے حل کیا جا سکتا ہے

کیا ہماری توجہ کا دائرہ بحران کا شکار ہے؟ کیا اس کے لیے سوشل میڈیا کو موردِ الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے یا یہ محض ہماری بھٹکی ہوئی توجہ کے لیے ایک بہانہ ہے؟

آپ اپنے نوٹیفیکیشنز کو بند کر سکتے ہیں جب آپ توجہ مرکوز کر رہے ہوں اور ’بیچ چیکنگ‘ کے ذریعے ای میلز اور پیغامات کو چیک کر سکتے ہیں (پیکسلز)

جب میں اپنے سامنے کھلے خالی گوگل ڈاکیومنٹ کو گھور رہی ہوتی ہوں تو میری ای میل ان باکس کا مانوس ’پنگ‘ بج اٹھتا ہے۔ چیک کرنا بہتر ہوگا کیوں کہ شاید یہ ضروری ہو (لیکن ایسا نہیں ہے)۔

جب میرا دھیان ہٹ جاتا ہے تو میں سوچتی ہوں کہ شاید مجھے سلیک پر اپنے ساتھیوں کے پیغامات دیکھنے چاہیں۔ وہاں کسی نے ایک مزاحیہ کہانی کا لنک شیئر کیا ہو تو میں اسے پڑھنا شروع کر دیتی ہوں جبکہ اس دوران میں اپنے انٹرنیٹ براؤزر کے ٹیبز کے درمیان سوئچ بھی کرتی رہتی ہوں۔

پھر مجھے یہ خیال بھی آتا ہے کہ میرے فون پر کیا ہو رہا ہے۔ ایک دوست نے مجھے ایک میم بھیجی ہے جو میں نے دو دن پہلے اس وقت دیکھی تھی جب میں ایک اور غیر ضروری سکرول میں مصروف تھی۔ آن لائن ریٹیلر آسوس مجھے ایک اور ڈسکاؤنٹ کوڈ دے رہا ہے۔ ایچ ایم آر سی مجھے میرے ٹیکس ریٹرن کے بارے میں میسج کر رہا ہے اس کے بعد پھر وہی ’پنگ‘ سنائی دیتی ہے تو دوبارہ ان باکس میں واپسی۔

یہ ان بیکار چیزوں میں سے چند ہیں جن کی وجہ سے میری توجہ اس وقت بھٹک گئی جب میں لکھنا شروع کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اپنے دھیان کو اتنا دیر تک قابو میں رکھنا کہ میں حقیقت میں وہ کام مکمل کر سکوں جن کے لیے مجھے ملازمت دی گئی ہے، روزمرہ کی کشمکش کی جنگ ہے، چاہے میں کتنی ہی بار ’پومودورو میتھڈ‘ (25 منٹ کے لیے الارم سیٹ کریں، مسلسل کام کریں اور پھر پانچ منٹ کا وقفہ لیں) اپنانے کی کوشش کروں یا یوٹیوب پر توجہ مرکوز کرنے میں مدد دینے والے ’ٹرپی بائنورل بیٹس‘ سنوں (دو مختلف ساؤنڈ فریکوئینسیز آپ کو توجہ مرکوز کرنے میں مدد کرتی ہیں)۔

اور جب کام سے گھر لوٹتی ہوں تو میں ’ڈبل سکریننگ‘ کا شکار ہو جاتی ہوں جہاں میں اپنے فون پر سوشل میڈیا سکرول کرتی ہوں جبکہ ساتھ ساتھ ٹی وی بھی دیکھ رہی ہوتی ہوں یا کسی سے گفتگو کرتے وقت فون چیک کرنا۔

یقیناً میں پہلے بہتر انداز میں اپنی توجہ مرکوز کر سکتی تھی، میں نے طالب علمی کے دنوں میں بلیک ہاؤس جیسی بھاری کتابیں بھی پڑھ ڈالیں تھیں (حالانکہ اُس وقت میرے پاس آئی فون، انسٹاگرام اکاؤنٹ یا 500 واٹس ایپ گروپز نہیں تھے)۔

میں یقیناً واحد شخص نہیں ہوں جو ایسا محسوس کرتی ہے۔ 2023 میں کنگز کالج لندن کے ایک مطالعے میں 49 فیصد شرکا نے کہا کہ ان کی توجہ کا دائرہ پہلے سے کم ہو گیا ہے جب کہ 47 فیصد کا ماننا تھا کہ ’گہری سوچ‘ ماضی کا قصہ بن چکی ہے۔

اس دوران 50 فیصد نے اعتراف کیا کہ وہ اپنی پوری کوششوں کے باوجود اپنے سمارٹ فون کو چیک کرنے سے باز نہیں رہ سکتے۔

کیلی فورنیا یونیورسٹی کے محققین نے اندازہ لگایا کہ اوسط ملازم روزانہ 77 مرتبہ اپنی ای میلز چیک کرتا ہے۔ تو کیا ہماری توجہ کا دائرہ بحران کا شکار ہے؟ کیا اس کے لیے سوشل میڈیا کو موردِ الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے یا یہ محض ہماری بھٹکی ہوئی توجہ کے لیے ایک بہانہ ہے؟

سائبر سائیکالوجسٹ اور برمنگھم سٹی یونیورسٹی میں سینیئر لیکچرر ڈاکٹر کرس فل ووڈ اس کی وضاحت کرتے ہیں: ’جب ہم توجہ کے دائرے کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد وہ وقت ہوتا ہے جس دوران کوئی شخص بغیر کسی رکاوٹ کے کسی کام پر اپنی توجہ مرکوز رکھ سکتا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ توجہ کا دائرہ ایک مستقل خاصیت نہیں ہے۔ اگرچہ یہ عمر کے ساتھ بہتر ہوتا ہے، چالیس کی دہائی میں یہ عروج پر پہنچتا ہے اور پھر بتدریج کم ہونے لگتا ہے، یہ لمحہ بہ لمحہ بھی بدل سکتا ہے۔‘

ان کے بقول: ’یہ مزاج، جذبات اور جسمانی حالتوں جیسے بھوک، تھکاوٹ یا دباؤ سے متاثر ہو سکتا ہے اور یہ حیاتیاتی اور ماحولیاتی دونوں عوامل سے تشکیل پاتا ہے۔‘

فل ووڈ مزید کہتے ہیں کہ ہمارا ماحول ’ڈرامائی طور پر بدل چکا ہے۔ اب ہم ایسے محرکات سے گھرے ہوئے ہیں جو ہماری توجہ کے لیے مسابقت پیدا کرتے ہیں، جسے اکثر ’اٹینشن اکانومی‘ کہا جاتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’کمپنیاں ایسی ٹیکنالوجیز اور ایپس ڈیزائن کرنے پر اربوں ڈالر خرچ کرتی ہیں جو ہماری توجہ حاصل کریں اور اسے برقرار رکھ سکیں کیونکہ کئی معاملات میں ان کی آمدنی اسی پر منحصر ہوتی ہے۔‘

پریوری ہسپتال روہیمپٹن کے کنسلٹنٹ سائیکائٹرسٹ اور ایسوسی ایٹ میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر ڈونلڈ میسی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔

ان کے بقول: ’ہر پلیٹ فارم یہ ڈیٹا اکٹھا کرتا ہے کہ ویڈیوز اور دیگر مواد کی مثالی لمبائی کیا ہے تاکہ صارفین کی مشغولیت کو بڑھایا جا سکے، وہ توجہ کی معیشت کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’تخلیق کار اکثر اس معلومات کو مزید دلکش پوسٹس بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ وقت کے ساتھ یہ طویل، زیادہ پیچیدہ ’آف لائن‘ سرگرمیوں پر توجہ مرکوز کرنے میں حقیقی مسائل پیدا کر سکتا ہے۔‘

انسانی دماغ نئی اور ہم سے جڑی ہوئی باتوں کو اہمیت دیتا ہے اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہمیں یہ دونوں چیزیں فراہم کرتے ہیں۔ یہ پلیٹ فارمز اس طرح بنائے گئے ہیں کہ دماغ کے تسکین والے نظام کو فعال کریں۔ جب ہمیں کوئی نیا نوٹیفیکیشن ملتا ہے (چاہے وہ معمولی ای میل ہی کیوں نہ ہو) یا ہم انسٹاگرام کی کوئی نئی سٹوری دیکھتے ہیں، تو ہمیں ڈوپامین ریلیز ہونے سے ایک خوشگوار احساس ملتا ہے۔

اسی احساس کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ہم بار بار ایسا کرتے ہیں یعنی سوشل میڈیا کا رخ کرتے ہیں۔

میسی کہتے ہیں کہ ایک اَن ریڈ میسیج یا نوٹیفیکیشن ’اضطراب کا احساس پیدا کر سکتا ہے اس لیے ہماری توجہ اس بصری یا صوتی اشارے کی طرف مبذول ہو جاتی ہے چاہیے اس کی اہمیت کچھ بھی نہ ہو۔‘

ہمارے فون کی کشش اتنی زیادہ ہے کہ تحقیقات نے یہ دریافت کیا ہے کہ اگر سمارٹ فون آپ کی نظر کے سامنے ہو، تو یہ آپ کو توجہ مرکوز کرنے میں مشکل پیدا کر سکتا ہے۔

جب آپ اپنا فون ایک مختصر وقفے کے لیے اٹھاتے ہیں یا اپنے کام کے ٹاسک سے تھوڑی دیر ٹیبز تبدیل کر کے یہ دیکھنے کے لیے کہ آیا آپ کا پسندیدہ ملبوسات کا برانڈ اپنی سیل شروع کر چکا ہے، تو آپ صرف سکرولنگ میں صرف کیا گیا وقت ہی ضائع نہیں کر رہے ہوتے بلکہ اپنی توجہ بھی ہٹا رہے ہوتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کیلی فورنیا یونیورسٹی کے ایک اور مطالعے کے مطابق کسی مداخلت کے بعد اپنے اصل کام پر واپس آنے میں اوسطاً 23 منٹ اور 15 سیکنڈ لگتے ہیں۔

اسے ’سوئچ کاسٹ‘ کہا جاتا ہے۔ اگر ہم کام کے دوران بار بار مختلف چیزوں کی طرف توجہ مبذول کرتے ہیں، جیسے فون چیک کرنا، ای میلز دیکھنا، یا سوشل میڈیا پر وقت گزارنا، تو یہ بہت زیادہ وقت اور توجہ ضائع کر دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں یہ حیران کن ہے کہ کوئی شخص اس اتنی ساری مداخلتوں کے باوجود کوئی بھی کام مکمل کر پائے۔

آج کل کے کام کے ماحول میں ہمیں ایک وقت میں بہت ساری چیزوں پر توجہ دینی پڑتی ہے، جیسے مختلف قسم کی کمیونیکیشنز (ای میلز، پیغامات، کالز) کو سنبھالنا اور ساتھ ہی اپنے اہم کاموں پر بھی دھیان دینا۔ اس کے علاوہ، ہمیں ہمیشہ دستیاب رہنے کی توقع ہوتی ہے تاکہ فوری طور پر کسی کال کا جواب دے سکیں۔

فل ووڈ کہتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ اس کی وجہ ٹیکنالوجی ہو لیکن یہ مداخلت ضرور کرتی ہے۔

ہمارے پاس ابھی تک اتنے طویل مدتی مطالعے نہیں ہیں جو یہ تعین کر سکیں کہ کیا ہماری توجہ کا دائرہ کم ہو رہا ہے اور کیا اس کی وجہ مکمل طور پر سوشل میڈیا ہے۔ جیسے ہمیشہ ہوتا ہے، یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ کورلیشن (یعنی دو چیزوں کا آپس میں رشتہ) ہمیشہ کازیشن (یعنی ایک چیز کا دوسری چیز کا سبب بننا) نہیں ہوتا۔

فل ووڈ مزید کہتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کے ہماری توجہ پر اثرات کے بارے میں خدشات نئے نہیں ہیں کیونکہ ٹیلی ویژن کے بارے میں دہائیوں پہلے بھی ایسے ہی خدشات ظاہر کیے گئے تھے۔

فل ووڈ مزید کہتے ہیں، ’توجہ کے مسائل بیرونی عوامل کے بجائے موروثی خصوصیات کی وجہ سے بھی ہو سکتے ہیں۔ حقیقت میں تحقیق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جینیات اے ڈی ایچ ڈی جیسے مسائل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں جو اکثر ماحولیاتی اثرات سے زیادہ ہوتے ہیں۔‘

دوسری طرف پریوری ہسپتال چیلمزفورڈ میں ایڈکشن تھراپسٹ ڈی جانسن کہتی ہیں کہ ہم اپنی توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت مکمل طور پر کھونے کے بجائے صرف انسانی مہارتوں کے کچھ بنیادی پہلو ’زنگ آلود‘ ہو چکے ہیں۔

تاہم ان کے بقول: ’اچھی بات یہ ہے کہ ہم باہر کی چیزوں سے وہی ڈوپامین ہارمون دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں جو ہمیں خوشی دیتے ہیں لیکن اس کے لیے مشق اور کوشش کی ضرورت ہے کیونکہ جب دماغ کسی ایسے رویے کو سیکھ لیتا ہے جو فوری طور پر خوشی دیتا ہے تو یہ فطری طور پر اسے دوبارہ دہرانا چاہتا ہے۔‘

تو پھر ہم اپنی توجہ دوبارہ کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟ سب سے پہلے ملٹی ٹاسکنگ کے افسانے سے چھٹکارا پانا ضروری ہے۔

جانسن کہتی ہیں: ’حالانکہ ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ہم ایک وقت میں ایک سے زیادہ چیزوں پر توجہ مرکوز کر سکتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ مناسب سطح کی توجہ کے ساتھ ممکن نہیں ہوتا۔ اس کے بجائے، ہمارے لیے ایک ہی کام پر مکمل توجہ دینا زیادہ بہتر ہو سکتا ہے جب تک کہ ہم اسے مکمل نہ کر لیں اور اس سے ’سوئچ کاسٹ‘ کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔

یہ سوچنا بھی فائدے مند ہوگا کہ آپ کے دن کے وہ اوقات کب ہوتے ہیں جب آپ سب سے زیادہ کارگر ہوتے ہیں یعنی کیا آپ وہ شخص ہیں جو صبح کے آغاز میں اپنی ’ڈو لسٹ‘ کو فوراً مکمل کر لیتے ہیں، کیا آپ کو دوپہر کے کھانے کے بعد سستی آ جاتی ہے یا دوپہر بڑے کاموں کے لیے آپ کا سب سے بہترین وقت ہے؟ جب آپ نے یہ معلوم کر لیا تو آپ اپنے زیادہ محنت والے کاموں کو ان اوقات میں شیڈول کرنے پر غور کر سکتے ہیں۔

 آپ اپنے نوٹیفیکیشنز کو بند کر سکتے ہیں جب آپ توجہ مرکوز کر رہے ہوں اور ’بیچ چیکنگ‘ کے ذریعے ای میلز اور پیغامات کو چیک کر سکتے ہیں جب آپ عام طور پر تھوڑے کم کارآمد ہوتے ہیں (یقیناً، یہ ممکن ہے یا نہیں اس کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ آپ کا کام کا دن کتنا لچکدار ہے، اور آپ کس قسم کے کام کرتے ہیں)۔

جانسن یہ بھی تجویز کرتی ہیں کہ ’اپنی ڈائری میں مخصوص اوقات اور تاریخیں مقرر کریں جب آپ ڈیوائس کے بغیر کوئی سرگرمی کریں۔ کوئی چیز شیڈول کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ زیادہ ممکن ہے کہ یہ مکمل ہو پائے بجائے اس کے کہ آپ صرف اپنی سکرین ٹائم کے بارے میں پریشان رہیں۔‘

اس کے بعد وہ مشورہ دیتی ہیں کہ اس سے حاصل ہونے والے فوائد کا حقیقتاً جائزہ لیں۔ آپ حیران ہو جائیں گے کہ آپ  وہ یاد رکھا جو آپ نے کہا اور کیا۔

آخر میں فل ووڈ کہتے ہیں کہ ’ٹیکنالوجی بذات خود توجہ کے لیے بری نہیں ہے، یہ اس کا استعمال ہے جو اہمیت رکھتا ہے۔ میں اس بات پر یقین نہیں کر پا رہا کہ میں خود کو مکمل طور پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے تربیت دے سکوں گا اس لیے میں اپنا فون اگلے کمرے میں چھپانے کا سوچ رہا ہوں تاکہ مجھے اسے بار بار نہ چیک کرنا پڑے۔ البتہ بطور انعام شاید میں پہلے ہی جلدی جلدی سکرول کر لوں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی