اسرائیل نے غزہ میں قیدیوں سے متعلق معاہدے کی منظوری کے لیے کابینہ کا اجلاس جمعے کو بلایا ہے تاہم فائر بندی کے معاہدے کے باوجود اسرائیل کے تازہ حملوں میں غزہ میں 80 سے زائد اموات ہوئی ہیں۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کے دفتر نے جمعے کو کہا کہ ’قیدیوں کی رہائی کا معاہدہ‘ طے پا گیا ہے اور انہوں نے سیاسی سلامتی سے متعلق کابینہ کا اجلاس بلانے کا حکم دیا ہے۔
وزرا کے درمیان دیرینہ اختلافات کی وجہ سے اسرائیل نے جمعرات کو متوقع اجلاسوں میں تاخیر کی، جن میں کابینہ معاہدے پر ووٹنگ کرے گی۔
اس اہم پیش رفت کے باوجود اسرائیلی جنگی طیاروں نے غزہ میں شدید بمباری کی ہے۔
فلسطینی حکام نے جمعرات کو بتایا کہ فائر بندی کے اعلان کے ایک دن بعد اسرائیلی کارروائیوں میں کم از کم 86 افراد مارے گئے ہیں۔
جمعرات کو امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا تھا کہ مذاکرات میں ایک ’نامکمل معاملہ‘ حل طلب ہے۔
ایک امریکی عہدیدار، جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی، نے بتایا کہ ان قیدیوں کی شناخت پر تنازع تھا جنہیں حماس رہا کروانا چاہتی ہے۔
عہدیدار نے مزید کہا، صدر جو بائیڈن اور نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایلچی دوحہ میں مصری اور قطری ثالثوں کے ساتھ اس مسئلے کو حل کرنے پر کام کر رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ واشنگٹن سمجھتا ہے کہ معاہدہ درست سمت میں جا رہا ہے اور 15 ماہ پرانے تنازعے میں فائر بندی ’اسی ہفتے کے آخر تک‘ عمل میں آنے کی توقع ہے۔
انہوں نے جمعرات کو سی این این پر کہا: ’ہمیں ایسی کوئی چیز نظر نہیں آ رہی جو اس وقت اس معاہدے کو ناکام کر سکے۔‘
سات اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے، جس میں 1200 افراد مارے گئے اور تقریباً 250 افراد کو قیدی بنا لیا گیا تھا، کے بعد اسرائیل نے غزہ پر زمینی اور فضائی حملے کیے۔
غزہ کی مقامی صحت کی وزارت کے مطابق اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں 46 ہزار سے زائد فلسطینی جان سے جا چکے ہیں۔
اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں غزہ کی تقریباً 23 لاکھ کی آبادی بے گھر ہو چکی ہے اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے اس حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
دنیا بھر کے رہنماؤں نے اسرائیل اور حماس کے درمیان 15 ماہ بعد فائر بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے اعلان کا خیرمقدم کیا اور دونوں فریقوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اس پر قائم رہیں اور غزہ کے شہریوں کو امداد پہنچانے میں تیزی لائیں۔
معاہدے کے اہم نکات
روئٹرز کے مطابق معاہدے پر بریفنگ پانے والے حکام نے اس کے یہ اہم نکات بتائے ہیں۔
فائر بندی کے ابتدائی چھ ہفتوں میں اسرائیلی فوج کا مرکزی غزہ سے بتدریج انخلا اور بے گھر فلسطینیوں کی شمالی غزہ میں واپسی ہو گی۔
فائر بندی کے دوران روزانہ غزہ میں 600 ٹرکوں پر مشتمل انسانی امداد کی اجازت دی جائے گی، جن میں سے 50 ٹرک ایندھن لے کر آئیں گے اور 300 ٹرک شمال کے لیے مختص ہوں گے۔
حماس 33 اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرے گی، جن میں تمام خواتین (فوجی اور شہری)، بچے اور 50 سال سے زیادہ عمر کے مرد شامل ہوں گے۔
حماس پہلے خواتین قیدیوں اور 19 سال سے کم عمر بچوں کو رہا کرے گی، جس کے بعد 50 سال سے زیادہ عمر کے مردوں کو۔
اس دوران اسرائیل اپنے ہر سویلین قیدی کے بدلے 30 فلسطینیوں اور ہر اسرائیلی خاتون فوجی کے بدلے 50 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔
اسرائیل سات اکتوبر، 2023 کے بعد سے گرفتار تمام فلسطینی خواتین اور 19 سال سے کم عمر کے بچوں کو پہلے مرحلے کے اختتام تک رہا کرے گا۔
رہائی پانے والے فلسطینیوں کی کل تعداد اسرائیلی قیدیوں کی رہائی پر منحصر ہوگی، اور یہ تعداد 990 سے 1,650 قیدیوں تک ہو سکتی ہے، جن میں مرد، خواتین اور بچے شامل ہیں۔
پہلے مرحلے کے 16ویں دن معاہدے کے دوسرے مرحلے کے لیے مذاکرات شروع ہوں گے، جس میں باقی تمام قیدیوں کی رہائی، بشمول اسرائیلی مرد فوجیوں، مستقل فائر بندی اور اسرائیلی فوجیوں کا مکمل انخلا شامل ہوگا۔
تیسرے مرحلے میں توقع ہے کہ تمام باقی ماندہ لاشوں کی واپسی اور غزہ کی تعمیر نو کا آغاز شامل ہوگا، جس کی نگرانی مصر، قطر اور اقوام متحدہ کریں گے۔