اگرچہ گوتم بدھ نے کہا ہے کہ دنیا میں اس وقت امن آ جائے گا جب لوگ اپنی خواہشات ختم کر دیں گے، لیکن اس کے برعکس بعض مفکرین کا خیال ہے کہ دنیا کی ترقی اور تبدیلی کے لیے خواہشات کا ہونا ضروری ہے۔
فرد اور اقوام جب اپنی خواہشات کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں تو وہ ان تمام رکاوٹوں کو دور کرنا چاہتے ہیں جو ان کے راستے میں حائل ہوتی ہیں۔ اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے وہ اخلاقی اقدار اور اصول کی پروا نہیں کرتے ہیں۔ کامیابی ان کا مقصد ہوتی ہے۔ خواہشات کی کوئی حد نہیں ہوتی ہے۔ ایک کے بعد ایک خواہش ابھرتی ہے۔ اس کی تکمیل کے بعد دوسری خواہش جنم لیتی ہے۔ خواہش کی کامیابی برتری کا احساس دلاتی ہے۔
بقول جرمن فلسفی شوپن ہائر انسان اپنی ایک خواہش پورا ہونے پر مطمئن نہیں ہوتا ہے اور اس کی پوری زندگی اسی تگ و دو میں گزر جاتی ہے اور اس کی تمام خواہشات پوری نہیں ہوتی ہیں۔
خواہشات کا سلسلہ افراد کے ساتھ ساتھ بڑی تجارتی کمپنیوں میں بھی ہوتی ہے، جو اپنے مقابل کمپنیوں کی طاقت اور اثر کو سازشوں اور فسادات کی مدد سے ختم کر کے صرف اپنے تسلط کو باقی رکھتی ہیں۔ اس سے بدعنوانی اور رشوت بھی جنم لیتی ہے۔
خواہشات کا یہ جذبہ بڑی سلطنتوں میں بھی رہا ہے۔ مثلاً رومی سلطنت کی ابتدا رپبلک سے شروع ہوئی، لیکن جب اس کی فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا تو وہ رکا نہیں، اگرچہ رومی شہنشاہ آگسٹس نے رومی سلطنت کی وسعت پر پابندی لگانے کی کوشش کی تھی۔
مگر بعد کے رومی شہنشاہ اور فوجی جنرل فتوحات کے حامی تھے، کیونکہ اس میں مالِ غنیمت تھا۔ مفتوحہ قوموں کو غلام بنایا جاتا تھا۔ ٹیکسوں کے ذریعے دولت اکٹھی کی جاتی تھی۔ رومی سلطنت برابر وسیع ہوتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ اس کا سنبھالنا مشکل ہو گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مفتوحہ علاقوں میں رومیوں کے خلاف بغاوتیں شروع ہو گئیں، یہاں تک کہ رومی اپنی سلطنت کا دفاع نہیں کر سکے۔ انہوں نے برطانیہ سے اپنی فوجیں واپس بلائیں۔ اگرچہ ان کی سلطنت سمٹ تو گئی مگر جرمن قبائل نے 410 عیسوی میں رومی سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔ یہ زوال کیا اس لیے ہوا کہ رومی سلطنت کی خواہشات برابر اسے فتوحات پر ابھارتی رہیں۔
اسی صورت حال کو ہم مغل سلطنت میں دیکھتے ہیں۔ اکبر کے عہد میں مغل سلطنت کو وسعت ملی، مگر آنے والے بادشاہوں میں فتوحات کی خواہشات بڑھتی چلی گئیں، یہاں تک کہ اورنگزیب نے سلطنت کے انتظامات کو چھوڑ کر اپنا زیادہ وقت دکن میں گزارا تاکہ اس کی ریاستوں کو مغل سلطنت کا حصہ بنائے۔ اس کی خواہش تو پوری نہیں ہوئی، مگر مرہٹوں، جاٹوں، سکھوں اور روہیلوں نے مغل سلطنت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔
خواہشات کے نتیجے میں ماضی میں جو تبدیلیاں آئیں اور جو نتائج نکلے۔ ان کو ہم آج کل کے دور میں بھی دیکھتے ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد روس اور امریکہ دو سپر پاور بن کر ابھریں۔ مگر روس نے انقلاب کے 70 سال بعد یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ اپنے نظریے کا نفاذ پوری دنیا پر نہیں کر سکتا ہے۔ لہٰذا روس نے انقلابی خواہشات کو ختم کر کے اپنی سرحدوں میں واپس آ گیا۔
لیکن روس کے بعد اب چین کو سپر پاور بننے کی خواہش ہے۔ لیکن تاریخ میں کبھی بھی چین اپنی چاردیواری سے باہر نہیں نکلا۔ اس لیے نہ ہی اس کو کلونیل ازم کا کوئی تجربہ ہے اور نہ ہی دنیا کی مختلف تنظیموں سے اس کا واسطہ پڑا ہے۔
اب سرمایہ دارانہ نظام کو اختیار کرنے کے بعد چین کی خواہش ہے کہ ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں مغربی سامراج کی جگہ لے کر اپنے تسلط کو قائم کرے۔
چین کی صنعتی ترقی کے بعد خاص طور سے ایشیا اور افریقہ کے ملکوں کی چھوٹی صنعتیں ختم ہو رہی ہیں۔
اس کے کاری گر اور ہنرمند بے روزگار ہو کر غربت کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہ ممالک چین کا تو مقابلہ نہیں کر سکتے مگر اس کے زیرِ اثر رہ کر فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ایشیا اور افریقہ کے عوام اپنی آذادی کھو کر چین کے تسلط میں آ رہے ہیں۔
اس وقت ایک طرف امریکہ ہے جس کو عالمی سیاست کا تجربہ ہے جو نئے نئے نیوکلیئر اور مہلک ہتھیار رکھتا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ وہ اکیلا دنیا میں اپنا تسلط قائم رکھے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر چین کیوں اپنی حدود سے نکل کر ایک بڑی طاقت چاہتا ہے۔ چین کا یہ کارنامہ ہے کہ اس نے اپنے معاشرے سے غربت کا خاتمہ کر دیا، لیکن بڑھتی ہوئی خواہشات اس کے لیے امریکہ سے دشمنی کا باعث نہ ہوں گی؟
اگر دونوں ملک اپنی خواہشات پورا کرنے کے لیے جنگ کا راستہ تو اختیار نہیں کریں گے؟ جنگ کی صورت میں دنیا کو تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔