سندھ اسمبلی میں زرعی آمدن پر انکم ٹیکس کا قانون منظور

نئے قانون کے تحت سندھ میں زراعت سے حاصل ہونے والی آمدن پر دو سے 10 فیصد تک انکم ٹیکس قابل ادا ہو گا۔

صوبہ سندھ میں 26 مارچ 2021 کو کاشت کار گندم کی فصل پر کھڑے کام کر رہے ہیں (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

سندھ اسمبلی نے صوبے میں زرعی انکم ٹیکس لاگو کرنے سے متعلق قانون کی منظوری دے دی ہے، جس کے تحت زراعت سے حاصل ہونے والی آمدن پر دو سے 10 فیصد تک انکم ٹیکس قابل ادا ہو گا اور قانون کا اطلاق 15 جنوری سے عمل میں آئے گا۔  

صوبائی اسمبلی نے پیر کو ہونے والے اجلاس میں سندھ زرعی انکم ٹیکس 2025 بل کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام کے تحت پاکستان کے وعدوں کے حصے کے طور پر منظور کرتے ہوئے قرض دینے والے کے ساتھ بات چیت میں صوبوں کو شامل کرنے میں وفاقی حکومت کی ناکامی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

آئی ایم ایف کے سات بلین ڈالر کے معاہدے کے تحت پاکستان کی معاشی اصلاحات کے ایک حصے کے طور پر دیکھا جانے والا قانون، قرض دینے والے کی منظوری حاصل کرنے کے لیے محصولات کی وصولی کو بڑھانے اور بار بار ہونے والے خسارے کو کم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے زرعی آمدنی پر ٹیکس میں اضافہ کرتا ہے۔

صوبائی اسمبلی کے اجلاس سے قبل وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی صدارت میں صوبائی کابینہ کے اجلاس میں مجوزہ قانون کی منظوری دی گئی۔

مراد علی شاہ نے صوبائی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں صوبے کی ٹیکس پالیسیوں کا بھرپور دفاع کیا اور نشاندہی کی کہ زرعی ٹیکس پہلے سے موجود ہے اور وصول کیا جا رہا ہے۔

ٹیکس وصولی فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو منتقل کرنے کے وفاقی حکومت کے اقدام پر تنقید کرتے ہوئے، وزیراعلیٰ نے وفاقی حکومت پر الزام عائد کیا کہ جب اس نے آئی ایم ایف کے ساتھ قرض کے معاہدے پر بات کی تو جان بوجھ کر صوبوں کو اس سے باہر رکھا۔

انہوں نے کہا کہ ’ایف بی آر نے خود آئی ایم ایف کو بتایا کہ زراعت پر ٹیکس نہیں لگایا جاتا۔‘

سندھ کے وزیر قانون ضیا لنجار نے صوبائی اسمبلی کے سامنے بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’ٹیکس فارمولہ موجودہ حکومت کے تحت تشکیل دیا گیا تھا، اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرام کے تحت کئی معاہدوں کو پورا کرنا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’پنجاب اور خیبرپختونخوا پہلے ہی اس بل کو پاس کر چکے ہیں، جب کہ بلوچستان سے جلد ہی اس کی منظوری کی توقع ہے۔‘

سندھ میں زرعی آمدن پر قابل ادا ٹیکس کی تفصیلات
زرعی پیداوار سے آمدن  زرعی ٹیکس کی شرح 
20 سے 25 کروڑ روپے 2 فیصد
25 کروڑ روپے سے زیادہ اور 30 کروڑ روپے تک 3 فیصد
30 کروڑ روپے سے زیادہ اور 35 کروڑ روپے تک 4 فیصد 
35 کروڑ روپے سے زیادہ اور 40 کروڑ روپے تک 6 فیصد
40 کروڑ روپے سے زیادہ اور 50 کروڑ روپے تک 8 فیصد 
50 کروڑ روپے سے زیادہ 10 فیصد

اس نئے قانون کے تحت، سندھ ریونیو بورڈ زرعی انکم ٹیکس کی وصولی اور اسے نافذ کرنے، ایک منظم اور موثر عمل کو یقینی بنانے کے لیے ذمہ دار اتھارٹی ہو گا۔

قانون تجویز کرتا ہے کہ سالانہ چھ لاکھ روپے تک کی زرعی آمدنی ٹیکس سے مستثنیٰ ہو گی، جب کہ مویشیوإ (لائیو سٹاک) سے ہونے والی آمدن کو بھی اس قانون کے تحت ٹیکس نیٹ سے باہر رکھا گیا ہے۔

سندھ اسمبلی سے منظور ہونے والے قانون کے تحت کارپوریٹ فارمنگ کو ٹیکس نیٹ میں شامل کیا گیا ہے، جس کے تحت ’چھوٹی کمپنیوں پر زرعی ٹیکس 20 فیصد اور بڑی پر 28 فیصد لاگو ہو گا۔‘

وزیر اعلیٰ سندھ کے ترجمان رشید چنا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’قدرتی آفات کی صورت میں قانون میں زرعی انکم ٹیکس کو ایڈجسٹ کرنے کا رعایت رکھی گئی ہے۔‘  

سندھ کے وزیر زراعت سردار محمد بخش مہر نے اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ 'زرعی ٹیکس سے متعلق وفاق کو آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے سے پہلے سندھ حکومت سے بات کرنا چاہیے تھی۔

’ہم نے اس بل پرتحفظات کا اظہار کیا ہے کیونہ سندھ کا شعبہ زراعت مسائل سے دو چار ہے۔ یہ پیشہ پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے اوراس پر ٹیکس لگا رہے ہیں۔‘

سردار محمد بخش مہر کا مزید کہنا تھا کہ ’وفاق کی پالیسی ہمیں سمجھ نہیں آرہی۔ ہمیں تمام کاشتکاروں کو سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں سبسڈی دینا چاہئے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’سندھ سب سے پہلے پاکستان کے لیے کھڑا ہوتا ہے۔ یہ وفاقی کی جانب سے ناجائز ہے، ناجائزی ہے۔ قیادت کا حکم ہے کہ زراعت کے شعبے کو مضبوط بنانا ہے۔ زراعت ریڑھ کی ہڈی ہے۔ کاٹن اور چاول کی سپورٹ پرائس نہیں دے پائے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

زمینداروں کا مؤقف

نثار خاصخیلی سندھ فنانس کمیشن کے رکن اور پیشے کے اعتبار سے زمیندار ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’حکومت کی جانب سے لوگوں کو ٹیکس سرکل میں لانا اچھی بات ہے۔ زراعت کے شعبے پر ٹیکس لگانے سے پہلے دیگر ممالک کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں زراعت کا شعبہ ویسے بھی پیچھے جا رہا ہے۔ ہماری کسی بھی فصل کے لیے امدادی قمیت نہیں ہوتی۔ ہمارے پاس فرٹیلائیزر کی قیمت زیادہ ہے۔ اگر ٹیکس لگا رہے ہیں تو پہلے شعبہ زراعت کو سیکیور کرنا ہو گا۔‘

نثار خاصخیلی کا کہنا تھا کہ ’گندم کی امدادی قیمت 4000 روپے مقرر ہے لیکن کسان کو 2200 روپے فی 40 کلو گرام ملتے ہیں۔ حکومت نے جو قیمت مقرر کی ہے وہ نہیں مل رہی۔ ہم ٹیکس تو دینے جارہے ہیں لیکن پہلے ہی 33 سے 35 فیصد نقصان اٹھا رہے ہیں۔

’اس صورت حال میں لوگ اس سیکٹر سے پیچھے ہٹ جائیں گے۔ انکم ٹیکس لگنے سےگندم ، چاول اور دیگر زرعی اجناس کی قیمتیں زیادہ ہوں گے۔ زراعت منافع بخش کاروبار نہیں ہے۔ اس وقت حکومت کو سبسڈی دینا چاہیے۔‘ 

زمیندار شہزاد شاہ جیلانی  نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’زرعی ٹیکس پالیسی یا ٹیکس کے نظام پر بہت زیادہ غور و فکر اور جائزے کی ضرورت ہے۔

’پاکستان چونکہ ایک زرعی معیشت ہے اس لیے زرعی ٹیکس ہونا چاہیے۔ ہمارے پاس موسمی فصلیں ہیں اور نقدی فصلیں بھی ہیں۔ ان کے اپنے چیلنجز ہیں، جن میں موسمیاتی تبدیلی، پانی کی کمی اور غربتوغیرہ شامل ہیں۔‘

ماہرین کی رائے

ماہر معیشت قیصر بنگالی نے اندپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ جن پر ٹیکس واجب الادا ہے ان کو دینا چاہیے۔

’اگر زراعت سے وابستہ لوگوں پر ٹیکس بنتا ہے تو ان کو دینا چاہیے۔ لیکن ٹیکس عائد کرنےکا جو دباؤ ہے وہ وفاق پر ہے۔ اس وقت وفاق کا بڑا خسارہ ہے، جسے پورا کرنے کے لیے آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ جو شعبے کم ٹیکس دیتے ہیں ان سے زیادہ ٹیکس لیا جائے۔‘

قیصر بنگالی کا کہنا تھا کہ ’کیونکہ پاکستان میں بڑے زمینداروں کی تعداد کم ہے، اس لیے ان سے دو سو فیصد ٹیکس بھی لے لیا جائے تو حکومتی خسارہ پورا نہیں ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خسارہ بہت بڑا ہے۔ اس ٹیکس سے زیادہ رقم ریکور نہیں کر پائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پورے سندھ میں 50 سے 100 بڑے زمیندار ہوں گے، جو ٹیکس دینے کے قابل ہوں گے۔ 80 فیصد چھوٹا زمیندار ہے اور ان پر ویسے بھی ٹیکس نہیں لگے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت