محکمہ موسمیات پاکستان کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ ساڑھے چار ماہ کے دوران ملک بھر میں مجموعی طور پر بارشیں 40 فیصد تک کم ہوئی ہیں۔ جس کے پیش نظر خشک سالی کے خدشات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اس دورانیے میں بارشوں کی 52 فیصد کمی کے ساتھ صوبہ سندھ سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ رہا ہے۔
محکمہ موسمیات نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ملک کے میدانی علاقوں میں خاطر خواہ بارشیں ریکارڈ نہیں کی گئیں، جس کے نتیجے میں یکم ستمبر 2024 سے15 جنوری کے درمیان معمول سے 40 فیصد کم بارشیں ریکارڈ کی گئی ہیں۔ صوبہ سندھ میں 52، بلوچستان میں45 اور پنجاب میں 42 فیصد معمول سے کم بارشیں ہوئیں جبکہ پوٹھوہار میں ہلکی خشک سالی کی صورت حال دیکھی گئی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اٹک، چکوال، راولپنڈی، اسلام آباد، بھکر، لیہ، ملتان میں بھی بارشیں معمول سے کم ہوئیں جبکہ راجن پور، بہاولنگر، بہاولپور، فیصل آباد، سرگودھا میں بھی خشک سالی دیکھی گئی ہے۔
بارشیں کم ہونے پر ماہرین نے سب سے زیادہ شعبہ زراعت کے متاثر ہونے کی نشاندہی کی ہے۔
کسان اتحاد کے چیئرمین خالد باٹھ نے انڈپینڈںٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے ملک میں سب سے زیادہ دار و مدار زراعت پر ہونے کے باوجود یہ شعبہ سب سے زیادہ نظر انداز ہے۔ ایسے حالات میں بارشیں کم ہونے سے تمام صوبوں کے زرعی علاقے فصلوں کے لیے پانی کی قلت کا شدید سامنا کر رہے ہیں۔ کئی علاقوں میں نہری پانی یا زیر زمین پانی کڑوا ہونے پر بارشی پانی پر انحصار ہے وہاں فصلیں تباہ ہونے کا خدشہ ہے، جس سے اس سال پیداوار میں 20 فیصد تک کمی یقینی ہے۔‘
اس حوالے سے شعبہ ماحولیات پنجاب یونیورسٹی کے سربراہ ڈاکٹرساجد حسین نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ویسے تو ماحولیاتی تبدیلی کا چیلنج پوری دنیا میں درپیش ہے، لیکن اس کے سب سے زیادہ اثرات جنوبی ایشائی ممالک میں سامنے آ رہے ہیں۔ پاکستان بھی مسلسل اس مسئلے کی وجہ سے مختلف مشکلات کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ ہمارے ہاں ماحولیاتی آلودگی بڑھتی جا رہی ہے جس میں بارشوں کی کمی سب سے بڑی سمجھی جاتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ترجمان پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ چوہدری مظہر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’خشک سالی کا مسئلہ سب سے زیادہ چولستان اور تھل میں ہوتا ہے، جو شدید گرمی میں سامنے آسکتا ہے۔ اس حوالے سے ہماری تیاری پہلے سے ہوتی ہے۔ سب سے پہلے پینے کا پانی ٹینکوں کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے۔ کیمپ بھی لگائے جاتے ہیں۔ تاہم فصلوں کے لیے پانی کی دستیابی مشکل ہوتی ہے۔‘
زراعت پر مضر اثرات
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے شعبہ ماحولیات کے سابق سربراہ ڈاکٹر عبدالواحد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’صحت افزا ماحول اور بہتر زراعت کا دار و مدار بارشوں پر ہوتا ہے۔ اس بار بارشیں معمول سے بہت کم ہوئی ہیں جو ماحول کے لیے تو خطرناک ہے ہی زراعت بھی اس سے شدید متاثر ہو رہی ہے۔ گندم کی فصل کو ان دنوں میں بارشوں کی اشد ضرورت ہوتی ہے، لیکن بارش نہ ہونے سے پیداوار میں کافی کمی کا خدشہ ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کئی علاقوں میں فصلوں کا انحصار ہی بارش کے پانی پر ہوتا ہے جیسے چولستان، تھر یا پہاڑی علاقے لہٰذا وہاں سب سے زیادہ فصلیں متاثر ہو رہی ہیں۔ پھر زیر زمین پانی بارش کی وجہ سے بلند ہوتا ہے بارش نہیں ہو گی تو وہ نیچے چلا جاتا ہے جس سے ٹیوب ویل بھی پانی نہیں نکال سکتے۔‘
خالد باٹھ کے بقول، ’سندھ اور پنجاب کے زیر کاشت رقبوں پر کھڑی فصلیں بارشیں نہ ہونے پر مطلوبہ اوسط دیتی دکھائی نہیں دے رہیں۔ ہمارے ہاں نہری نظام بھی پوری طرح زرخیز زمینوں تک پانی فراہم کرنے کے قابل نہیں۔ ٹیل پر موجود رقبے بارش کے پانی سے کاشت ہوتے ہیں۔ کئی نہریں جنہیں ’ششماہی‘ کہا جاتا ہے وہ تو چلتی ہی بارش کے پانی سے ہیں، لیکن اس بار ان سے فصلیں سیراب نہیں ہو سکیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سندھ اور پنجاب کے میدانی علاقے چولستان اور تھر کے علاوہ کے پی کے اور بلوچستان میں پہاڑی علاقوں کی فصلیں اور باغات سب بارش کے پانی سے سیراب ہوتے ہیں۔ لیکن اس بار بارشوں میں کمی ہر علاقے کو متاثر کر چکی ہے۔ پانی ویسے ہی ہماری زمینوں کے لیے ناکافی ہے جو خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ ایسی صورت حال میں گنا، کپاس، گندم سمیت تمام فصلوں کی پیداوار زیادہ کرنا تو درکنار ہم موجودہ پیداوار بھی قائم رکھنے کے قابل نہیں ہیں، جس سے کاشت کار مزید بدحال ہوتا جا رہا ہے۔‘
بارشیں کم ہونے کی وجہ سے ’آلودگی میں اضافہ‘
ڈاکٹر ساجد حسین کے مطابق ’ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان میں بارشیں خطرناک حد تک کم ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ یہ ایسا چیلنج ہے جس سے فوری نمٹنا ضروری ہے تاکہ خشک سالی جیسے مسائل کو روکا جا سکے۔ بارش کم ہونے سے ماحولیاتی آلودگی میں اس قدر اضافہ ہو چکا ہے کہ لاہور، جو باغوں کا شہر کہلاتا ہے، آلودہ شہروں میں اکثر پہلے تین نمبروں میں رہتا ہے۔ دیگر شہروں کی آب و ہوا بھی انسانی زندگی کے لیے آئیڈیل نہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ایسے حالات میں بارشوں میں مزید 40 فیصد تک کمی خطرناک ہے کیونکہ کرہ ارض جس ایکو سسٹم کے تحت چلتا ہے اس میں بارشوں کا اہم کردار ہوتا ہے۔ فضائی آلودگی کا سب سے بڑا توڑ بارش ہوتی ہے جو مضر صحت ذرات کو ہوا سے زمین پر لاتی ہے۔ اگر بارشیں کم ہوں گی تو فضائی آلودگی میں خطرناک حد تک اضافہ ہو جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ماحول میں آلودگی کا بڑھنا نہ صرف انسانوں بلکہ فصلوں، درختوں، جانوروں اور چرند پرند کے لیے بھی خطرناک ہوتا ہے۔ جس کے اثرات وبائی امراض کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔ لہٰذا دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کو بھی ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنج پر قابو پانے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے، جس میں سب سے زیادہ درختوں اور پودوں کا کٹاؤ روک کر اگانے کی طرف توجہ دینا ہے۔ ہر حکومت اپنی سطح پر اقدامات کرتی تو ہے لیکن حالات کے مطابق اس میں تیزی ناگزیر ہے۔‘
خیال رہے کہ فضائی آلودگی میں اضافہ کے پیش نظر سموگ کے دنوں میں حکومت پنجاب مصنوعی بارش کا تجربہ بھی کر چکی ہے۔ اس کے علاوہ محکمہ تحفظ ماحولیات کی جانب سے آلودگی کم کرنے کے متعدد اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں، جن میں گاڑیوں، بھٹوں اور فیکٹریوں سے خارج ہونے والا دھواں کم کرنے کے اقدامات شامل ہیں۔