پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں، کیا مضبوط نظام بنے گا؟

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ہدایات پر پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے لیے قانون سازی ہونے جا رہی ہے۔

23 فروری، 2024 کی اس تصویر میں پنجاب اسمبلی کے اجلاس کا ایک منظر(انڈپینڈنٹ اردو)

حکمران جماعت مسلم لیگ ن نے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کی تیاریوں کی ہدایات کر دیں تاہم عوامی مسائل کے حل کے حوالے سے بدلیاتی اداروں کو کس قدر مضبوط کیا جائے گا یہ حکومتی اقدامات پر منحصر ہے۔

آئین پاکستان کے آرٹیکل 140 اے کے مطابق ملک کی ہر صوبائی حکومت کو مقامی حکومتوں کا قیام عمل میں لانے کا پابند کیا گیا ہے، جنہیں سیاسی، انتظامی اور مالیاتی خود مختاری حاصل ہوگی۔

مسلم لیگ ن کے رکن پنجاب اسمبلی راجہ شوکت عزیز نے اس معاملے پر انڈپینڈںٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’پنجاب اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں بلدیاتی قانون پاس کرایا جائے گا۔ نواز شریف اور وزیر اعلیٰ مریم نواز کی اراکین پنجاب اسمبلی سے پیر کو لاہور میں ملاقات میں طے پایا ہے کہ اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کرنے کی حکمت عملی تیار کی جائے۔‘

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پنجاب کے حزب اختلاف کے رہنما ملک احمد خان نے بھی انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایوان میں قانون پیش ہونے پر اعتراضات جمع کرائیں گے۔ ہماری تیاری مکمل ہے فارم 47 والا انتخاب نہ ہوا تو پی ٹی آئی کی ہر ضلع میں حکومت بنے گی۔‘

تاہم تجزیہ کار سلمان غنی مانتے ہیں کہ ’بدقسمتی سے کوئی جمہوری حکومت اپنے اراکین سمبلی کی بجائے بلدیاتی نمائندوں کو اختیار دینے کے حق میں نہیں ہوتی۔ بدقسمتی سے آمروں کے ادوار میں ہی بااختیار بلدیاتی نظام بنے جو ہر آنے والی جمہوری حکومت نے ختم کیے۔ اب بھی بلدیاتی انتخابات کے بس دعوے ہیں اور قانون سازی وقت گزارنے کا بہانہ ہے اور یہ وطیرہ سب حکومتوں کا رہا ہے۔‘

ہر حکومت اپنے مطابق بلدیاتی قانون کیوں بنانا چاہتی ہے؟

مسلم لیگ ن کے رکن پنجاب اسمبلی راجہ شوکت عزیز نے کہا کہ ’ہمارے قائد میاں نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے پیر کو لاہور میں ریجن کے حساب سے ملاقاتیں شروع کر دی ہیں۔ اس ملاقات میں دیگر اراکین کے ساتھ میں بھی موجود تھا اس دوران مختلف امور زیر غور آئے۔ ہماری قیادت نے سب سے زیادہ بلدیاتی انتخابات کی تیاریوں کی ہدایات دیں۔‘

راجہ شوکت کے بقول، ’ہماری قیادت اختیارات نچلی سطح تک منتقل کر کے عوامی مسائل حل کرنا چاہتی ہے۔ لہذا ہدایات ملی ہیں کہ تمام علاقوں میں متحرک کارکنوں کے نام فائنل کیے جائیں تاکہ یونین کونسل کی سطح پر حقیقی نمائندگی کو سامنے لایا جائے۔

’قانون سازی کے لیے بل اسمبلی میں بھیج دیا گیا جو آئندہ سیشن میں پاس ہو جائے گا۔ نئے قانون میں اضلاع کی بجائے تحصیلوں میں ٹاؤنز چیئرمین بنائے جائیں گے۔ ہر یونین کونسل میں نو ممبران ہوں گے پھر وہ اپنا چیئرمین منتخب کریں گے۔ یونین کونسل سے منتخب نمائندے تحصیل اور ٹاون کے چیئرمین منتخب کریں گے۔‘

اپوزیشن لیڈر پنجاب ملک احمد خان کے بقول: ’حکومت بلدیاتی انتخابات اپنی مرضی کے مطابق نظام بنانے کے لیے کرانا چاہتی ہے۔ قانون سازی کے لیے بل اسمبلی میں پیش ہو گا تو ہم جمہوری انداز میں نظام مضبوط کرنے کے لیے اپنی تجاویز دیں گے۔ جن شقوں پر ہمیں اختلاف ہو گا ان کے خلاف اعتراضات جمع کرائیں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہماری بھی تیاری مکمل ہے جو لوگ پارٹی کے ساتھ کڑے وقت میں کھڑے رہے انہیں ٹکٹ دیں گے۔ حکومت کی کارکردگی سے لوگ مایوس ہیں جس طرح انہیں آٹھ فروری کو لوگوں نے مسترد کیا اب بھی کریں گے۔ انہوں نے فارم 47 والا انتخاب دوبارہ کرانے کی کوشش کی تو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔‘

بلدیاتی انتخاب سے عوام کو کیا فائدہ ہو گا؟

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ہدایات پر پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے لیے قانون سازی ہونے جا رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سلمان غنی کے مطابق: ’اگرچہ مضبوط جمہوری حکومت مقامی حکومتوں کے بااختیار نظام سے مشروط ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے انہیں ملکوں اور معاشروں نے ترقی کی ہے جہاں ان کی مقامی حکومتیں مضبوط بااختیار ہوتی ہیں۔

’ان کے پاس نچلی سطح پر ہی عوامی مسائل حل کرنے کے مکمل اختیارات ہوتے ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ لندن اور نیو یارک کے مئیر ان کے صدر اور وزیراعظم سے زیادہ بااختیار ہوتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہمارا المیہ یہ رہا کہ یہاں مقامی حکومتوں کے نظام کو منتخب حکومتیں اور خود سیاسی جماعتیں ہضم نہیں کرتیں ان کے منشور میں بااختیار بلدیاتی نظام کی باتیں ہوتی ہیں لیکن مسند اقتتدار پر پہنچ کر بھول جاتی ہیں۔ اس حوالے سے ن لیگ، پی ٹی آئی اور پی پی پی سب کا طرز عمل ایک ہے۔ 

’ان کی سیاسی تاریخ ایک ہے اگر یہ جمہوریت کی مضبوطی کی خواہاں ہوں تو یہ اتفاق رائے سے مقامی حکومتوں کا نظام بنا سکتی ہیں لیکن اس پر سنجیدہ نہیں۔‘

سلمان غنی نے کہا کہ جہاں تک پنجاب کا سوال ہے تو اب بھی اس حوالے سے دعوے اور انتخابات کرانے کی باتیں ہیں۔ جیسے خود پی ٹی آئی نے کو ایک برس ہو چکا ہے ان کا دعویٰ تھا کہ تین ماہ میں کرائیں گے لیکن نہیں کرائے۔ اب بھی ان کی سنجیدگی نہیں اور نہ ہی سیاسی حالات ایسے ہیں کہ یہ عوام سے رجوع کر سکیں۔

’خود اراکین اسمبلی بھی ایسا نہیں چاہیں گے نہ ہی کسی وزیر اعلیٰ کو برداشت ہوتا ہے کہ ان کا اختیار نیچے منتقل ہو جائے۔ کیونکہ انہیں زمینی حقائق کا علم ہے اور وہ رسک نہیں لیں گے۔ پہلے بھی انتخابات حکومتوں کے کہنے پر نہیں عدالتی حکم پر ہوئے اور اب بھی جب ہوں گے الیکشن کمیشن یا عدالتی احکامات پر ہی ہوں گے۔‘

ان کے بقول بدقسمتی سے ماضی میں آمر اس حوالے سے بلدیاتی انتخابات کراتے تھے اس کی وجہ قومی انتخابات نہ کرانا ہوتا تھا۔

’پہلے جنرل ضیا اور پھر جنرل مشرف نے کسی حد تک موثر نظام بنایا لیکن ان کے دور میں ہی قدغن لگنا شروع ہو گئی۔ ہر حکومت برسر اقتدار آ کر دوسرے کا نظام گرا کر یہ ادارے افسر شاہی کے سپرد کر دیتی ہے۔‘

مسلم لیگ ن کے رکن پنجاب اسمبلی راجہ شوکت عزیز نے دعویٰ کیا کہ ’ہماری قیادت نے ہدایات دی ہیں کہ ایم این اے یا ایم پی اے اپنے حلقوں میں مکمل طور پر عوام کے مسائل حل نہیں کر سکتے۔

’یہی وجہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے ذریعے مقامی ادارے فعال کیے جائیں تاکہ یہ نالیوں، گلیوں اور محلوں کے بنیادی مسائل ان کی دہلیز پر حل ہو سکیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان