چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کے بطور چیف جسٹس 100 دن مکمل ہونے پر سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں بتایا گیا کہ اس دوران زیر التوا مقدمات میں تین ہزار کی ’بڑی کمی‘ واقع ہوئی ہے۔
چیف جسٹس نے 26 اکتوبر 2024 کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا اور ان کے عہدے کے 100 دن دو فروری کو مکمل ہوئے۔
اس حوالے سے جاری کیے گئے سپریم کورٹ کے اعلامیے میں بتایا گیا کہ ’چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے پہلے 100 دنوں میں سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات میں تین ہزار کی بڑی کمی واقع ہوئی۔ سپریم کورٹ نے آٹھ ہزار 174 مقدمات کا فیصلہ کیا، جبکہ چار ہزار 963 نئے مقدمات کا اندراج ہوا۔
اعلامیے کے مطابق: جسٹس یحییٰ آفریدی کے دور میں عدالتی نظام کو سہل بنانے کے لیے جو سب سے اہم کام کیا گیا، وہ الیکٹرانک بیانِ حلفی یا ای-ایفی ڈیوٹ کا اجرا اور فوری مصدقہ نقل کے حصول کا نظام ہے، جس سے سائلین اور وکلا کو بہتر سہولیات کے ساتھ ساتھ وقت کی بچت بھی ہوئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مزید بتایا گیا کہ ’عدلیہ کے احتساب کے نظام کو مؤثر بنانے کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کے لیے علیحدہ سیکرٹریٹ کا قیام عمل میں لایا گیا، جہاں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے خلاف اب تک 46 شکایات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ 40 شکایات نمٹا دی گئی ہیں جبکہ پانچ شکایات پر ججوں سے ابتدائی جواب جمع کروانے کو کہا گیا ہے۔‘
اسی طرح ’لا اینڈ جسٹس کمیشن میں ریٹائرڈ جج صاحبان کے بجائے بار ایسوسی ایشن کے نمائندوں کو جگہ دی گئی۔ کراچی سے مخدوم علی خان، پنجاب سے خواجہ حارث، بلوچستان سے کامران مرتضیٰ، اسلام آباد سے منیر پراچہ اور خیبر پختونخوا سے فضل الحق ایڈووکیٹس کو شامل کیا گیا۔‘
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ ’آئینی استحقاق کے استعمال سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں چاروں صوبوں کی متناسب نمائندگی کو یقینی بنایا گیا ہے۔ اسی طرح ہائی کورٹس سے سپریم کورٹ میں ترقی دینے کے لیے تمام ہائی کورٹس سے پانچ، پانچ ججوں کا میرٹ کی بنیاد پر جائزہ لیا گیا۔ اس کے علاوہ جیل ریفارمز اور ماتحت عدلیہ کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے بھی اقدامات اٹھائے گئے۔‘
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے بطور چیف جسٹس 100 دن مکمل ہونے کے حوالے سے عدالتی امور کی کوریج کرنے والے صحافی ناصر اقبال نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’جسٹس یحییٰ آفریدی کا بنیادی مقصد زیر التوا مقدمات نمٹانا ہے اور وہ دور افتادہ علاقوں کے ججوں کو مواقع فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ آئینی بینچ کی بجائے ان کا فوکس جیل اصلاحات پر ہے۔‘
بقول ناصر اقبال: ’چیف جسٹس وکلا کی ناچاقی کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ اس میں کچھ وقت لگے گا۔‘
سینیئر صحافی حسنات ملک کہتے ہیں کہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے 100 دنوں کے دوران ’عدلیہ کی خودمختاری متاثر ہوئی ہے۔‘
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’مقننہ کا کردار ججوں کی تعیناتی میں مزید بڑھ چکا ہے اور سیاسی جماعتوں نے اپنے من پسند جج تعینات کیے ہیں۔‘
بقول حسنات ملک: ’چیف جسٹس نے آئینی بینچ کو اتنا طاقتور کر دیا ہے، جتنا کہ 26ویں آئینی ترمیم نے نہیں کیا تھا۔ ججوں میں بھی مایوسی ہے اور ججوں کی تقسیم، جس کے ختم ہونے کی امید تھی، وہ بھی اب باقی نہیں رہی، کیونکہ ججوں کے اختلافات مزید بڑھ چکے ہیں۔‘
دوسری جانب عدالتی صحافی صبیح الحسنین نے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے 100 دنوں کے دوران عدلیہ کی کارکردگی کو سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ’پالیسیوں کا تسلسل‘ قرار دیتے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’گو کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا کردار محدود رہا مگر دور رس نتائج دیکھے جائیں تو عدلیہ بطور ادارہ مضبوط ہوئی ہے، جس میں پارلیمان کا کردار رہا ہے اور اب کوئی بھی چیف جسٹس کے عہدے پر ہو، سپریم کورٹ کو سیاست دانوں کے خلاف استعمال کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ ججوں کی تعیناتیوں میں ایگزیکٹو کا کردار زیادہ ہے۔‘
صبیح الحسنین کا مزید کہنا تھا کہ ’چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے دور دراز علاقوں میں نچلی عدالتوں کے دورے کیے اور وہ وہاں پر نظامِ انصاف میں اصلاحات لانے کا پورا پلان رکھتے ہیں مثلاً ضلعی عدالتوں میں شفٹوں کی بنیاد پر عدالتیں چلانے جیسی تجویز وہ مختلف فورمز پر دیتے ہیں۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’ججوں کے مابین اتحاد رکھنا اور سپریم جوڈیشل کونسل میں موجود ججوں کے خلاف شکایات البتہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے لیے ایک چیلنج ہیں۔‘