چیف جسٹس کی تقرری: 12 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی مکمل ہو گئی

سینیٹ سے پیپلز پارٹی کے فاروق ایچ نائیک، ن لیگ سے اعظم نذیر تارڑ، جے یو آئی ف سے کامران مرتضیٰ جبکہ پی ٹی آئی سے بیرسٹر علی ظفر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے رکن ہوں گے۔

قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق 17 اکتوبر 2024 کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران نوید قمر سے گفتگو کر رہے ہیں  (پی ٹی وی سکرین گریب)

پیر رات 11 بج کر 21 منٹ

چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری کی غرض سے آئین کے تحت بننے والی خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں شامل کرنے کے لیے پارلیمان کے ایوان زیریں (قومی اسمبلی) کے اراکین کے ناموں پر فیصلہ ہو گیا، جس کے ساتھ ہی 12 رکنی کمیٹی مکمل ہو گئی ہے۔  

سپیکر قومی اسمبلی نے پیر کی رات 12 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا، جس میں کمیٹی اراکین کے نام درج ہیں۔ 

نوٹیفیکیشن کے مطابق قومی اسمبلی سے خصوصی کمیٹی میں پیپلز پارٹی کے نوید قمر اور راجہ پرویز اشرف، نون لیگ کے خواجہ آصف، احسن اقبال اور شائستہ پرویز، سنی اتحاد کونسل کے بیرسٹر گوہر خان اور حامد رضا کے نام شامل ہیں، جب کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رعنا انصار کمیٹی کے رکن ہوں گے۔  

سینیٹ سے پیپلز پارٹی کے فاروق ایچ نائیک، ن لیگ سے اعظم نذیر تارڑ، جے یو آئی ف سے کامران مرتضیٰ جبکہ پی ٹی آئی سے بیرسٹر علی ظفر کو کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے شامل ہیں۔  

مذکورہ کمیٹی آئین کے آرٹیکل 175 اے (3) کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان کے تین سینیئر ترین ججوں میں سے کسی ایک کا چیف جسٹس کے طور دو تہائی اکثریت سے نام تجویز کرے گی۔  

اس وقت عدالت عظمیٰ کے تین سینیئر ترین جج جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحییٰ آفریدی ہیں۔

اراکین کمیٹی کے مطابق خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا پہلا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں کل یعنی منگل کو شام چار بجے منعقد ہو گا۔ 

پیر رات 9 بج کر 45 منٹ

چیف جسٹس کی تقرری کے لیے تشکیل پانے والی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے لیے ایوان بالا یعنی سینیٹ کو پارلیمانی لیڈرز کی جانب سے چار نام موصول ہو گئے جو انہوں نے پیر کو سپیکر قومی اسمبلی کو بھجوا دیے ہیں۔

سینیٹ سے پیپلز پارٹی کے فاروق ایچ نائیک، ن لیگ سے اعظم نذیر تارڑ، جے یو آئی ف سے کامران مرتضیٰ جبکہ پی ٹی آئی سے بیرسٹر علی ظفر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے رکن ہوں گے۔

خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں متناسب نمائندگی کے حساب سے پارلیمانی کمیٹی میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، سنی اتحاد کونسل، ایم کیو ایم اور جے یو آئی ف کی نمائندگی ہو گی۔ باقی کسی جماعت کا کوئی رکن پارلیمانی کمیٹی میں شامل نہیں ہو گا۔

حکمران جماعت مسلم لیگ ن کو پارلیمانی کمیٹی میں برتری ہو گی۔ مسلم لیگ ن کے قومی اسمبلی سے تین اور سینیٹ سے ایک رکن پارلیمانی کمیٹی میں شامل ہو گا۔

پیپلز پارٹی کے قومی اسمبلی سے دو اور سینیٹ سے ایک رکن کمیٹی میں شامل ہوگا۔ سنی اتحاد کونسل کے بھی قومی اسمبلی سے دو اور سینیٹ سے ایک رکن شامل ہو گا۔ جبکہ ایم کیو ایم  کے ایک رکن کو قومی اسمبلی سے نمائندگی ملے گی اور جے یو آئی ف کے ایک رکن  کو سینیٹ سے نمائندگی ملے گی۔


پیر شام 4 بج کر 23 منٹ

پاکستان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق نے پیر کو پارلیمانی سیاسی پارٹی کے رہنماؤں سے ان کی قومی اسمبلی میں نمائندگی کے تناسب کے حساب سے اراکین کے نام طلب کر لیے ہیں تاکہ چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری کے لیے خصوصی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جا سکے۔

اس کمیٹی میں آٹھ قومی اسمبلی جبکہ چار سینیٹ کے اراکین شامل ہوں گے۔ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن، سنی اتحاد کونسل اور ایم کیو ایم سے ان کے اراکین کے نام مانگے گئے ہیں۔


پیر دن 12 بجے

آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد چیف جسٹس کی تقرری مقررہ وقت پر ممکن ہوگی؟

 

وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد پیر کی صبح 26ویں آئینی ترمیم باقاعدہ آئین کا حصہ بنانے کے لیے صدر آصف علی زرداری نے اس کی توثیق کر دی ہے۔ اس کے بعد سوال یہ ہے کہ آیا 26 اکتوبر کے قلیل وقت تک کیا نئے چیف جسٹس کی تقرری ہو جائے گی؟ 

26ویں آئینی ترمیم کے نفاذ کے بعد چیف جسٹس کی مدت اور تقرری کے طریقہ کار میں نمایاں تبدیلیاں لائی گئی ہیں۔ اس ترمیم کے بعد موجودہ چیف جسٹس کی نامزدگی 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی موجودہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے تین روز پہلے کرے گی۔

ترمیم کی رو سے پارلیمانی کمیٹی دوتہائی اکثریت سے چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے 14 روز قبل نامزدگی کیا کرے گی جبکہ ترمیم کی منظوری کے بعد موجودہ پہلی نامزدگی چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے تین روز قبل ہو گی۔

25 اکتوبر موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے عہدے کی مدت کا آخری دن ہے۔ 26 اکتوبر سے نئے چیف جسٹس عہدے کا حلف اٹھائیں گے، اس صورت حال میں قانونی ماہرین کے مطابق نئے چیف جسٹس کی نامزدگی 22 یا 23 اکتوبر کو ہو جانی چاہیے۔

خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے 12 ارکان میں قومی اسمبلی کے آٹھ اور سینیٹ کے چار ارکان ہوں گے۔ نیا چیف جسٹس سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین ججز میں سے منتخب ہو گا۔ نامزد جج کے انکار کی صورت میں باقی سینیئر ججز میں سے کسی کو نامزد کیا جا سکے گا۔

ترمیم کے تحت پارلیمانی کمیٹی کے فیصلے کے خلاف کوئی سوال نہیں کیا جا سکے گا۔ چیف جسٹس کی مدت تین سال ہو گی، ماسوائے یہ کہ وہ استعفیٰ دے، 65 سال کا ہو جائے یا برطرف کیا جائے۔

یہ ترامیم قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ سے قبل متعارف کروائی گئی ہیں، تو کیا وہ عہدے کی مدت میں دو سال مزید توسیع لینے کے اہل ہیں؟

انڈپینڈنٹ اردو کے اس سوال کے جواب میں وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ ’واضح کر دوں کہ چیف جسٹس کے لیے عمر کی آخری حد 65 برس ہی رہے گی۔ اس لیے کوئی اگر 64 سال کی عمر میں چیف جسٹس بنے گا تو 65 برس میں ریٹائر ہو گا۔ عمر کی حد میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ لیکن اگر کوئی 60 سال کی عمر میں چیف جسٹس بنے گا تو 63 برس میں عہدے کی مدت ختم ہونے کے بعد ریٹائرڈ تصور ہو گا اور اسے عمر کے دو سال مزید نہیں ملیں گے۔‘

خصوصی پارلیمانی کمیٹی کب اور کیسے تشکیل پائے گی؟

نئے چیف جسٹس کی تقرری میں پارلیمانی کمیٹی کا کردار اہم ہوگا۔ سرکاری ذرائع سے میسر معلومات کے مطابق صدر پاکستان کے دستخط کے بعد جب 26 ویں ترمیم گزٹ آف پاکستان کا حصہ بن جائے گی تو نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد سپیکر قومی اسمبلی تمام پارلیمانی سربراہوں کو خط لکھ کر امیدواروں کے نام مانگیں گے جن پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ ماہرین کے مطابق چونکہ نئے چیف جسٹس کی تقرری میں وقت تھوڑا رہ گیا ہے لہذا نہیں معلوم کہ یہ پارلیمانی کمیٹی جلدی میں اتفاق رائے سے بن پائے گی یا نہیں۔

پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کے بعد چیف جسٹس 22 اکتوبر رات 12 بجے تک تین سینیئر ترین نام خصوصی پارلیمانی کمیٹی کو بھیجنے کے پابند ہیں۔ جن پر غور کرنے کے بعد پارلیمانی کمیٹی ایک نام کو نامزد کر کے نام وزیراعظم پاکستان کو بھجوائے گی۔ وزیراعظم چیف جسٹس کے تقرر کے لیے ایڈوائس صدر پاکستان کو حتمی منظوری کے لیے بھیجیں گے۔ چیف جسٹس بذریعہ وزارت قانون نام پارلیمانی کمیٹی کو بھجوائیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کمیٹی اپنے پہلے اجلاس میں تین سینیئر ترین ججوں میں سے کسی ایک کو چیف جسٹس پاکستان بنانے کے لیے غور کرے گی۔ 12 رکنی کمیٹی میں اکثریتی رائے کو ترجیح دی جائے گی۔

سپریم کورٹ میں جج کی تقرری کیسے ہو گی؟

آئینی ترامیم کے مسودے کے مطابق سپریم کورٹ کے ججز کی تقرری بھی کمیشن کے تحت ہو گی۔ 12 رکنی کمیشن میں چیف جسٹس، پریزائیڈنگ جج، سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین جج شامل ہوں گے۔

کمیشن میں وفاقی وزیر قانون، اٹارنی جنرل، اور سپریم کورٹ کا 15 سالہ تجربہ رکھنے والا وکیل، جو پاکستان بار کونسل کا نمائندہ ہو گا، شامل ہو گا۔

جوڈیشل کمیشن میں سینیٹ اور قومی اسمبلی سے حکومت اور اپوزیشن کے دو دو ارکان شامل ہوں گے، جبکہ ایک خاتون یا غیر مسلم رکن بھی ہو گا، جو سینیٹ میں بطور ٹیکنوکریٹ تقرری کی اہلیت رکھتا ہو۔

26ویں آئینی ترمیم کے مطابق کوئی شخص سپریم کورٹ کا جج تعینات نہیں ہو گا جب تک کہ وہ پاکستانی نہ ہو۔ سپریم کورٹ کا جج ہونے کے لیے پانچ سال ہائی کورٹ کا جج ہونا یا 15 سال ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کا وکیل ہونا لازم ہے۔

وزیراعظم محمد شہباز شریف نے آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد تقریر میں اس اعتماد کا اظہار کیا کہ یہ عام آدمی کو آسان اور فوری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے گا۔انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ ذاتی مفادات اور انا سے بالاتر ہو کر بہترین قومی مفاد میں آگے بڑھیں۔

قانونی ماہرین کے مطابق نئی ترمیم کا پہلا چیلنج یہ ہی ہوگا کہ سیاسی جماعتیں کتنا جلد اور اتفاق رائے سے نئے چیف جسٹس کے نام پر متفق ہوتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان