لیبیا کے ساحل کے قریب تارکین وطن کو لے جانے والی کشتی کو پیش آنے والے حادثے میں سوار 63 پاکستانیوں میں سے 16 کی لاشیں سمندر سے برآمد کر لی گئی ہیں اور ان کی شناخت بھی ہو گئی ہے۔
اسلام آباد میں پاکستان کے دفتر خارجہ نے منگل کو کشتی ڈوبنے کے واقعے میں جان سے جانے والے شناخت شدہ پاکستانیوں کے ناموں اور دوسری تفصیلات پر مشتمل ایک فہرست جاری کی ہے۔
فہرست کے مطابق جن پاکستانیوں کی شناخت ہوئی ہے ان میں 13 کا تعلق خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلعے کرم سے ہے، جب کہ تین کا تعلق پشاور، باجوڑ اور اورکزئی اضلاع سے ہے۔
دفتر خارجہ کے مطابق جن پاکستانیوں کی لاشیں سمندر سے نکال لی گئی ہیں ان میں ثقلین حیدر، شعیب حسین، نصرت حسین، شعیب علی، سید شہزاد حسین، عابد حسین، آصف علی، مصور حسین، اسور حسین، عابد حسین، مصیب حسین، اشفاق حسین، شاہد حسین کرم (ضلع کرم) سراج الدین (باجوڑ)، محمد علی شاہ (اورکزئی) اور انیس خان (پشاور) شامل ہیں۔
ترجمان دفتر خارجہ نے بیان میں بتایا کہ کشتی میں سوار 63 میں سے 37 پاکستانی محفوظ رہے ہیں، جن میں سے 33 پولیس کی حراست میں ہیں، جبکہ ایک ہسپتال میں زیر علاج ہے اور 10 پاکستانی تاحال لاپتہ ہیں۔
اس سے قبل منگل کی صبح سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور میں منگل کو وزارت خارجہ کے حکام نے انکشاف کیا کہ لیبیا میں پیش آنے والے حالیہ کشتی حادثے میں کل 73 افراد سوار تھے جن میں سے 63 کا تعلق پاکستان سے ہے۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کے حکام نے منگل کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے اجلاس میں بتایا ہے کہ 63 پاکستانیوں میں سے زیادہ تر کا تعلق خیبرپختونخوا کے علاقے کرم اور باجوڑ سے ہے۔
اجلاس میں مزید بتایا گیا ہے کہ پاکستانیوں کے علاوہ اس کشتی میں دس بنگلہ دیشی بھی سوار تھے۔
دفتر خارجہ کے ڈی جی کرائسز مینجمنٹ شہزاد حسین نے اجلاس میں بتایا کہ ’لیبیا میں کشتی ڈوبنے کے حالیہ واقعے کی جانچ کی جا رہی ہے جبکہ حادثے میں بچ جانے والے تین پاکستانیوں نے سفارت خانے سے رابطہ کیا ہے جن سے مزید معلومات حاصل کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا ہے کہ ’مراکش کشتی حادثے میں بچ جانے والے 22 افراد وطن واپس پہنچ چکے ہیں جبکہ میتیں پہنچنے کا عمل بھی مکمل ہو چکا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
منگل کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے اجلاس چیئرمین عرفان الحق صدیقی کی صدارت میں ہوا، جس میں مراکش اور لیبیا کشتی حادثے کے علاوہ فلسطین پر امریکی صدر کے بیان اور امریکی سیاست دانوں کے عمران خان کے حق میں بیانات پر بھی بات ہوئی۔
سینیٹر علی ظفر نے سوال اٹھایا کہ ’انسانی سمگلنگ میں کتنے لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور کتنوں کو سزائیں دی گئی ہیں؟‘
اس موقع پر چیئرمین کمیٹی سینیٹر عرفان الحق صدیقی نے کہا کہ ’گرفتاری یا سزاؤں کا تعلق وزارت خارجہ سے نہیں ہے، یہ کام وزارت داخلہ اور ایف آئی اے کا ہے۔ وزارت خارجہ کا کام یہ ہے کہ بیرون ملک جہاں کوئی پاکستانی پھنسے تو یہ اس کی مدد کریں۔‘
امریکی سیاست دانوں کے عمران خان کے حق میں بیانات
کمیٹی رکن سینیٹر علی ظفر کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوال جس میں امریکی سیاست دان کی طرف سے ’فری عمران خان‘ کی سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی مہم اور امریکی سینیٹ میں بیان کا حوالہ دیا گیا، اس پر سیکرٹری خارجہ آمنہ بلوچ نے کہا کہ ’یہ حکومت یا وزارت خارجہ کی طرف جواب یا ردعمل نہیں جائے گا بلکہ سینیٹ کو اس پر جواب دینا چاہیے۔‘
دفتر خارجہ حکام نے مزید کہا کہ ’ریجرڈ گرنیل نے جب ٹویٹس کیں تو ان کے پاس کوئی عہدہ نہیں تھا، ریجرڈ گرنیل نے اپنے ٹویٹس ڈیلٹ بھی کر دی ہیں، ریجرڈ گرنیل کے پاس ابھی بھی کوئی عہدہ نہیں ہے، ریجرڈ گرینل اب بھی صرف نامزد ہیں اب تک کوئی عہدہ نہیں ہے۔‘