چین نے بنگلہ دیش کے نصابی کتب میں ایک نقشے پر اعتراض اٹھایا ہے، جس میں ایشیا کے نقشے میں اروناچل پردیش اور اکسائی چن کو انڈیا کا حصہ دکھایا گیا ہے۔
چینی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش نے چوتھی جماعت کی نصابی کتابوں اور محکمۂ سروے کی ویب سائٹ پر ان دونوں علاقوں کو انڈیا کی حدود میں شامل کر کے ’حقائق کو غلط انداز میں پیش کیا ہے‘ اور اسے ’حقیقت سے متصادم غلطی‘ قرار دیا۔
بنگلہ دیشی روزنامہ پروتھوم الو کے مطابق بیجنگ نے گذشتہ سال نومبر میں بنگلہ دیشی حکام کو ایک خط بھیجا تھا، جس میں نقشوں اور نصابی کتابوں میں پیش کی گئی معلومات کی درستگی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
چین کے اس خط میں کہا گیا کہ بنگلہ دیش اینڈ گلوبل سٹڈیز کے نصاب میں شامل ایشیا کے ایک نقشے میں چین اور انڈیا کی سرحدوں کو ’غلط انداز میں‘ پیش کیا گیا ہے، خاص طور پر اروناچل پردیش اور اکسائی چن کے حوالے سے۔
انڈیا اور چین کے درمیان تین ہزار 488 کلومیٹر طویل سرحد ہے، جو مغرب میں لداخ سے مشرق میں اروناچل پردیش تک پھیلی ہوئی ہے۔
چین کے پاس لداخ میں اکسائی چن نامی علاقے کے ایک بڑے حصے کا کنٹرول ہے، جو اس نے انڈیا کے ساتھ 1962 کی جنگ کے دوران جیتا تھا۔ چین انڈیا کی شمال مشرقی ریاست اروناچل پردیش کو اپنے صوبے تبت کا حصہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان تعلقات جولائی 2020 میں مزید کشیدہ ہو گئے تھے، جب لداخ کی وادیٔ گلوان میں ہونے والی ایک خونریز جھڑپ میں کم از کم 20 انڈین فوجی اورچار چینی فوجی مارے گئے تھے۔
یہ پہلا موقع تھا کہ 45 سال میں کسی سرحدی جھڑپ میں جانی نقصان ہوا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گذشتہ سال انڈیا نے اعلان کیا تھا کہ اس نے چین کے ساتھ متنازع ہمالیائی سرحد پر فوجی گشت کے حوالے سے ایک معاہدہ کر لیا ہے، جو اس تنازع کو حل کرنے کی طرف ایک اہم پیش رفت قرار دی گئی تھی۔
چین نے نویں اور دسویں جماعت کے لیے بنگلہ دیش اینڈ گلوبل سٹڈیز کی نصابی کتابوں میں ہانگ کانگ اور تائیوان کو علیحدہ ممالک کے طور پر بیان کیے جانے پر بھی اعتراض کیا ہے، جہاں انہیں ڈھاکہ کے تجارتی شراکت دار کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
بیجنگ کا مؤقف ہے کہ تائیوان ایک خودمختار ریاست نہیں، بلکہ چین کا ایک الگ صوبہ ہے اور اسے چین کے ساتھ ضم کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کو بھی مسترد نہیں کرتا۔
چین نے بنگلہ دیش پر زور دیا کہ وہ ’ون چائنا‘ پالیسی پر قائم رہے اور ایک دوسرے کی ’خودمختاری، آزادی اور علاقائی سالمیت‘ کا احترام کرے۔
چین کے اس خط کے بعد دونوں ممالک کے سفارت کاروں کے درمیان مذاکرات بھی ہوئے۔
بنگلہ دیش کی وزارتِ تعلیم اور نیشنل کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بُک بورڈ (این سی ٹی بی) کا کہنا ہے کہ نئی نصابی کتابوں کی طباعت پہلے ہی مکمل ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے فوری طور پر کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔
اس صورت حال کے پیش نظر، ڈھاکہ نے بیجنگ سے درخواست کی کہ وہ اس معاملے میں زیادہ دباؤ نہ ڈالے اور یقین دہانی کروائی کہ آئندہ اس مسئلے کو باہمی مشاورت سے حل کیا جائے گا۔
بنگلہ دیشی حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے دی ڈیلی سٹار کو بتایا: ’ہم اس وقت کوئی تبدیلی نہیں کر رہے اور صورت حال کو جوں کا توں برقرار رکھے ہوئے ہیں۔‘
© The Independent