لیبیا: ’پتہ ہوتا بیٹا غیرقانونی طور پر باہر جا رہا ہے تو نہ جانے دیتا‘

محمد اقبال نے بتایا کہ ان کے 27 سالہ بیٹے سراج الدین نے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی تھی۔ اس کے بعد وہ نوکری کے لیے پشاور اور اسلام آباد میں کوشش کرتے رہے۔

خیبر پختونخوا کے علاقے باجوڑ سے تعلق رکھنے والے سراج الدین ان 63 پاکستانیوں میں شامل تھے جو ایک کشتی کے ذریعے اٹلی جانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن بدقسمتی سے کشتی لیبیا کے ساحل کے قریب ڈوب گئی۔

پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق لیبیا میں رواں ہفتے ایک کشتی کو پیش آنے والے حادثے میں 16 پاکستانی جان سے گئے، جن میں سے 13 کا تعلق ضلع کرم، ایک کا ضلع اورکزئی، ایک کا پشاور اور ایک کا تعلق ضلع باجوڑ سے ہے۔

سراج الدین کے والد محمد اقبال نے انڈپینڈنٹ اردو کو اس حوالے سے بتایا کہ ’مجھے یقین نہیں آ رہا کہ میرا بیٹا مر چکا ہے۔ اللہ کرے کہ وہ زندہ ہو۔‘

محمد اقبال، جو شدید غم کی حالت میں تھے،  نے بتایا کہ ان کے 27 سالہ بیٹے سراج الدین نے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی تھی۔ اس کے بعد وہ نوکری کے لیے پشاور اور اسلام آباد میں کوشش کرتے رہے۔

انہوں نے کہا کہ ’حتیٰ کہ مختلف ممبرانِ اسمبلی (ایم این ایز) سے بھی مدد کی امید لگائی، مگر کہیں سے کوئی مثبت جواب نہ ملا۔‘

ان کے بقول: ’میرا بیٹا مجبور ہو کر ویزا لے کر سعودی عرب چلا گیا۔ وہاں اس نے دو تین سال گزارے اور اپنی کمائی سے اپنے چھوٹے بھائیوں کی تعلیم کے اخراجات پورے کرتا رہا۔ اس کا خواب تھا کہ اگر میں خود کچھ نہ کر سکا تو کم از کم اپنے بھائیوں کو اچھا مستقبل دوں گا۔‘

محمد اقبال مزید بتاتے ہیں، ’میں خود بیمار تھا۔ سراج الدین نے کہا کہ آپ گھر پر ہی رہیں، میں کماؤں گا تاکہ میرے بھائی تعلیم حاصل کر سکیں اور ہم اپنا گھر بنا سکیں۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کے بیٹے نے کبھی غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی خواہش ظاہر کی تھی، تو ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی ایسا کچھ نہیں کہا۔

’اگر مجھے پتا ہوتا کہ وہ غیر قانونی طریقے سے کہیں جا رہا ہے تو میں لاکھ تکلیفیں برداشت کرتا مگر اسے ہرگز نہ جانے دیتا۔‘

اقبال نے مزید بتایا کہ جب سراج الدین سعودی عرب میں تھے تو انہوں نے آخری بار یہی کہا تھا کہ وہ گھر واپس آ رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’انہوں نے کبھی نہیں کہا تھا کہ وہ کسی اور ملک جا رہے ہیں۔ وہ ایک تعلیم یافتہ نوجوان تھے اور مشقت والے کام ان کے بس کے نہیں تھے۔ وہاں محنت کے دوران ان کے ہاتھ پاؤں زخمی ہو گئے تھے۔‘

والد کا کہنا تھا ’مجھے اب بھی یقین نہیں آ رہا کہ وہ اس حادثے میں جان کھو چکا ہے۔ مگر جو تصویر مجھے دکھائی گئی، وہ دیکھ کر دل ماننے لگا ہے کہ واقعی یہ میرا بیٹا ہے۔ لوگ بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ وہ اس حادثے میں فوت ہو چکا ہے، مگر میں اب بھی اللہ سے دعا کر رہا ہوں کہ وہ کہیں نہ کہیں زندہ ہو۔‘

اپنے بیٹے کی موت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اقبال نے کہا کہ ’کوئی باپ ایسا نہیں ہو سکتا جو اپنے بیٹے کو کہے کہ غیر قانونی طریقے سے یورپ چلا جائے۔ جو میرے ساتھ ہوا میں نہیں چاہتا کہ کسی اور کے ساتھ ہو۔ میں تمام والدین سے اپیل کرتا ہوں کہ اپنے بیٹوں کو اس طرح ضائع نہ کریں۔‘

غیر قانونی تارکین وطن کے اعدادوشمار اور تفصیلات جمع کرنے والے ادارے انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) کی جانب سے جاری کی گئی 2024 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان غیر قانونی مائیگریشن میں دنیا کے پہلے پانچ ممالک میں شامل ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2021 کے مقابلے میں 2023 میں پاکستان سے غیر قانونی مائیگریشن میں 280 فیصد اضافہ ہوا۔

آئی او ایم کے مطابق 2023 میں مجموعی طور پر 8,728 افراد غیر قانونی طریقے سے یورپی ممالک گئے۔

سمندری راستوں میں گوادر سے کشتیوں کے ذریعے پسنی، جیوانی، پیشوکان یا سربندان کراس کر کے خلیج عمان کے راستے ایران پہنچا جاتا ہے، جہاں سے ترکی اور پھر یورپ جانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

فضائی راستے زیادہ تر وہ تارکین وطن استعمال کرتے ہیں جو معاشی طور پر مستحکم ہوتے ہیں۔ اس میں مشہور راستہ پاکستان سے متحدہ عرب امارات اور وہاں سے لیبیا کا ہے۔

لیبیا سے تارکین وطن کشتیوں کے ذریعے اٹلی پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسی راستے میں کئی اندوہناک واقعات پیش آ چکے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت