لیبیا حادثہ: شاید اس بار بھی ’اہل خانہ کو خالی تابوت ہی دکھانا پڑیں‘

لیبیا میں ایک کشتی حادثے میں جان سے جانے والے ضلع کرم کے ایک نوجوان کے رشتے داروں کے مطابق انہیں معلوم ہوا ہے کہ سمندری طوفان کے باعث کشتی الٹنے سے حادثہ پیش آیا اور انہیں ابھی تک میت کی حوالگی کے حوالے سے کوئی معلومات نہیں ہیں۔

فضا سے لی گئی اس تصویر میں 25 اپریل 2023 کو لیبیا کے ساحلی محافظوں کی جانب سے سمندر میں بچائے جانے کے بعد مختلف ممالک کے تارکین وطن کو لے جانے والی کشتیاں ایک بندرگاہ میں داخل ہوتی دکھائی دے رہی ہیں (اے ایف پی)

لیبیا میں ایک کشتی حادثے میں جان سے جانے والے ضلع کرم کے ایک نوجوان کے رشتے داروں کے مطابق انہیں معلوم ہوا ہے کہ سمندری طوفان کے باعث کشتی الٹنے سے حادثہ پیش آیا اور انہیں ابھی تک میت کی حوالگی کے حوالے سے کوئی معلومات نہیں ہیں۔

پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق لیبیا میں رواں ہفتے ایک کشتی کو پیش آنے والے حادثے میں 16 پاکستانی جان سے گئے، جن میں سے 13 کا تعلق ضلع کرم، ایک کا ضلع اورکزئی، ایک کا پشاور اور ایک کا تعلق ضلع باجوڑ سے ہے۔

جان سے جانے والے ضلع کرم کے ایک 20 سالہ نوجوان کے رشتے دار احمد (شناخت ظاہر نہ کرنے کے لیے اصل نام شائع نہیں کیا جا رہا) نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے کزن نے علاقے کے حالات سے تنگ آ کر یورپ جانے کا فیصلہ کیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ ضلع کرم سے بغیر دستاویزات کے یورپ جانے کا رجحان بہت پرانا ہے اور جب بھی کرم میں امن و امان کی صورت حال خراب ہوتی ہے تو یہاں کے لوگ بیرون ملک جانا شروع کر دیتے ہیں۔

یاد رہے کہ ضلع کرم میں گذشتہ تقریباً تین مہینوں سے دو گروپوں کے مابین پر تشدد تنازعے کے بعد حالات خراب ہیں۔ اگرچہ اب کچھ دن سے حالات میں قدرے بہتری آئی ہے لیکن مرکزی شاہراہ ٹل پاڑا چنار بدستور بند ہے۔

احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے رشتہ دار نے ایجنٹ کو 37 لاکھ روپے دیے تھے اور یہاں سے عمرہ کے لیے باقاعدہ احرام باندھ کر پہلے سعودی عرب اور اس کے بعد مصر چلے گئے۔

انہوں نے بتایا: ’اس سے پہلے ایران، ایراق اور اس کے بعد لیبیا جانے کا راستہ مشہور تھا لیکن اب سعودی عرب سے مصر اور اس کے بعد لیبیا جانے کا راستہ اپنایا جاتا ہے۔‘

مغربی افریقہ کے ملک لیبیا کی سرحد مشرق میں مصر کے ساتھ ملتی ہے جبکہ یورپی ملکوں یونان اور اٹلی کے ساتھ اس کا سمندری بارڈر موجود ہے اور اسی راستے سے لیبیا سے کشتی کے ذریعے تارکین وطن یورپ جاتے ہیں۔

احمد کے مطابق ابھی تک انہیں جان سے جانے والوں کی صرف فہرست ملی ہے، لاش کی حوالگی کے متعلق انہیں کوئی معلومات نہیں ملیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس سے پہلے 2012 میں آسٹریلیا جانے والی ایک کشتی کو اسی طرح حادثہ پیش آیا تھا جس میں کرم سے تعلق رکھنے والے درجنوں افراد سوار تھے، جن کی لاشیں نہیں ملی تھیں اور اہل خانہ کی تسلی کے لیے انہیں صرف خالی تابوت دکھانا پڑا تھا تو اب بھی شاید یہی صورت حال ہو۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ لیبیا کے سفارت خانے میں موجود کشتی حادثے میں بچ جانے والے کچھ جاننے والوں نے رابطہ کرنے پر ہمیں بتایا کہ کشتی میں سوار ہونے کے کچھ گھنٹے بعد ہی سمندری طوفان نے انہیں لپیٹ میں لے لیا تھا۔

بچ جانے والوں کے مطابق: ’پانی کشتی میں داخل ہو گیا اور لوگ بالٹیوں کی مدد سے پانی نکال رہے تھے لیکن بعد میں کشتی مکمل طور پر الٹ گئی۔‘

احمد نے بتایا کہ ہمارے علاقے کے پانچ افراد اس حادثے میں زخمی بھی ہوئے ہیں۔ انہوں نے شاید لائف سیونگ جیکٹ پہن رکھی تھی، جنہیں پانچ چھ گھنٹے سمندر میں رہنے کے بعد لیبیا کے سمندر میں پولیس نے ریسکیو کیا تھا۔

انہوں نے بتایا: ’زخمیوں کا گھر والوں سے رابطہ ہوا ہے لیکم انہیں یہ نہیں بتایا گیا کہ کون کہاں اور کس ہسپتال میں زیر علاج ہے لیکن وہ نہایت ڈرے ہوئے ہیں اور صحیح طریقے سے بات بھی نہیں کر سکتے۔‘

غیر قانونی تارکین وطن کے اعدادوشمار

غیر قانونی تارکین وطن کے اعدادوشمار اور تفصیلات جمع کرنے والے ادارے انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) کی جانب سے جاری کی گئی 2024 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان غیر قانونی مائیگریشن میں دنیا کے پہلے پانچ ممالک میں شامل ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2021 کے مقابلے میں 2023 میں پاکستان سے غیر قانونی مائیگریشن میں 280 فیصد اضافہ ہوا۔

آئی او ایم کے مطابق 2023 میں مجموعی طور پر 8,728 افراد غیر قانونی طریقے سے یورپی ممالک گئے۔

سب سے زیادہ غیر قانونی طور پر ترک وطن کرنے والے ممالک میں پہلے نمبر پر شام، دوسرے پر افغانستان، تیسرے پر تیونس، چوتھے پر مصر اور پانچویں پر پاکستان کے شہری ہیں۔

تارکین وطن کون سے راستے استعمال کرتے ہیں؟

آئی او ایم کے مطابق پاکستان سے تارکین وطن مختلف راستے استعمال کر کے یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ راستے زمینی، سمندری یا فضائی ہو سکتے ہیں، جن میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا راستہ بلوچستان کا ہے۔

رپورٹ کے مطابق تارکین وطن کراچی سے بلوچستان کی تفتان سرحد اور وہاں سے ایران کے شہر زاہدان پہنچتے ہیں۔ زاہدان سے آگے ترکی اور پھر یورپ کا سفر کرتے ہیں۔

دوسرے راستے کے تحت کراچی سے لسبیلہ اور ضلع کیچ کے راستے ایرانی سرحد پہنچا جاتا ہے۔ تیسرا راستہ کوئٹہ سے بلوچستان کے مغربی علاقوں اور وہاں سے ایران کے شہروں تفتان، ماشخیل اور راجے تک جاتا ہے۔

سمندری راستوں میں گوادر سے کشتیوں کے ذریعے پسنی، جیوانی، پیشوکان یا سربندان کراس کر کے خلیج عمان کے راستے ایران پہنچا جاتا ہے، جہاں سے ترکی اور پھر یورپ جانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

فضائی راستے زیادہ تر وہ تارکین وطن استعمال کرتے ہیں جو معاشی طور پر مستحکم ہوتے ہیں۔ اس میں مشہور راستہ پاکستان سے متحدہ عرب امارات اور وہاں سے لیبیا کا ہے۔

لیبیا سے تارکین وطن کشتیوں کے ذریعے اٹلی پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسی راستے میں کئی اندوہناک واقعات پیش آ چکے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان