پاکستانیوں سمیت 119 تارکین وطن امریکہ سے ملک بدر: پاناما

پاناما کے صدر ہوزے راؤل ملینو نے کہا ہے کہ پاکستان سمیت متعدد ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والے امریکہ میں مقیم 119  تارکین وطن کو پاناما پہنچا دیا گیا ہے۔ 

11 فروری 2025 کی اس تصویر میں پناہ گزین امریکہ جانے کا ارادہ ترک کر کے پاناما کی سرحد پار کرنے کے لیے پانامین نیشنل بارڈر سروس کے اہلکاروں سے بات کرتے ہوئے (اے ایف پی/ پال مونٹینیگرو)

لاطینی امریکہ کے ملک پاناما کے صدر ہوزے راؤل ملینو نے جمعرات کو تصدیق کی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان سمیت متعدد ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والے امریکہ میں مقیم 119  تارکین وطن کو ملک بدر کرتے ہوئے پاناما بھیج دیا ہے۔ 

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پاناما کے صدر ہوزے راؤل ملینو نے کہا ہے کہ امریکی فوجی طیارہ مختلف ایشیائی ملکوں کے امریکہ میں مقیم 119 تارکین وطن کو لے کر ان کے ملک پہنچا ہے۔ 

راؤل ملینو نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ امریکی فضائیہ کا ایک طیارہ بدھ کو دارالحکومت پاناما سٹی کے مغرب میں ہاورڈ میں اترا، اور اس میں سوار 119 تارکین وطن کو ہوٹلوں میں لے جایا گیا۔

’وہاں سے انہیں ڈیرین میں ایک پناہ گاہ میں لے جایا جائے گا اور جنگل میں ایک فضائی پٹی سے وطن واپسی کی پروازوں کے ذریعے گھر پہنچایا جائے گا۔‘

صدر ملینو نے کہا کہ ملک بدر ہونے والوں میں افغانستان، چین، انڈیا، ایران، نیپال، پاکستان، سری لنکا، ترکی، ازبکستان اور ویت نام کے شہری شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہا کہ جلد ہی امریکہ سے مزید طیارے متوقع ہیں۔ 

پاناما کے صدر کا کہنا تھا کہ مجموعی طور پر امریکہ پاناما کے 360 افراد کو تین پروازوں پر بھیجے گا۔

صدر ہوزے راؤل ملینو، جنہوں نے امریکہ سے نکالے جانے والے تارکین وطن کو اپنے ملک میں عارضی طور پر ٹھہرانے کی پیشکش کی تھی، نے کہا کہ طیارہ بدھ کو ’انتہائی متنوع قومیتوں کے لوگوں‘ کے ساتھ پہنچا، جن میں سے بہت سے ایشیا سے ہیں۔

امریکہ میں موجود ایک کروڑ 10 لاکھ غیر قانونی تارکین وطن کا تعلق لاطینی امریکی ممالک سے ہے۔ 

بہت سے تارکین وطن بہتر زندگی کی تلاش میں پاناما کے علاقے ڈیرین میں جنگلی جانوروں اور جرائم پیشہ گروہوں کا مقابلہ کرتے ہوئے خطرناک سفر کرتے ہیں۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 پاناما کی پولیس نے منگل کو درجنوں تارکین وطن کو واپس کیا، جن میں اکثریت وینزویلا کی تھی اور جو ٹرمپ کے ملک بدری کے ارادوں پر امریکہ کا سفر ترک کرنے کے بعد وطن واپس جانے کی کوشش کر رہے تھے۔

پولیس نے اس گروپ کو ایک منظم وطن واپسی کے عمل کے لیے کوسٹا ریکا واپس جانے پر مجبور کیا۔

ٹرمپ کے 20 جنوری کو اقتدار سنبھالنے کے بعد سے غیر قانونی تارکین وطن کولمبیا، وینزویلا، برازیل اور گوئٹے مالا کے علاوہ کیوبا میں واقع بدنام زمانہ گوانتانامو امریکی فوجی اڈے بھی گئے ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے دو ہفتے قبل پاناما کے دورے کے بعد امید ظاہر کی تھی کہ لاطینی امریکی ملک پاناما کینال سے متعلق امریکی تحفظات کو دور کرے گا۔

اسی دورے کے دوران پاناما کے صدر نے نئی امریکی انتظامیہ کی امریکہ میں مقیم تارکین وطن کی واپسی پر تعاون بڑھانے کا وعدہ کیا اور اس سلسلے میں قصبے میٹیٹی میں ہوائی پٹی کے استعمال کی پیشکش کی تھی۔ 

میٹیٹی ایک گھنا جنگل ہے، جو امریکہ جانے والے راستے میں جنوبی امریکہ سے نکلنے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کے لیے ایک اہم کراسنگ پوائنٹ بن گیا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے پیشرو جو بائیڈن نے گذشتہ سال ملینو کے انتخاب کے بعد تارکین وطن کو نکالنے میں مدد کے لیے 60 لاکھ ڈالر فراہم کرنے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔  

امریکی صدر کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے فوراً بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوبی امریکی سرحد پر قومی ایمرجنسی کا اعلان کیا اور ’لاکھوں‘ تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کا عزم کیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا