کراچی پولیس کے ایک اعلی عہدیدار کا کہنا ہے کہ ڈی ایس پی محکمہ انسداد دہشت گردی علی رضا کے قتل کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعوی کرنے والی ’الفجر‘ نامی تنظیم کا کوئی وجود نہیں۔
کراچی پولیس کے مطابق ڈی ایس پی سی ٹی ڈی علی رضا کو اتوار کی شام کراچی کے علاقے کریم آباد میں قتل کر دیا گیا تھا جب وہ اپنے دوستوں سے ملاقات کے لیے جا رہے تھے۔
اس واقعے کے حوالے سے ڈی آئی جی سی ٹی ڈی آصف اعجاز شیخ نےانڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’یہ واقعہ دہشت گردی کا ہے جس پر تفتیش جاری ہے۔ تاہم ابھی تک یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کتنے مسلح افراد دہشت گردی کے اس واقعے میں ملوث ہیں۔‘
ان کے مطابق: ’ملزمان نے 11 فائر کیے اور جائے وقوعہ سے نائن ایم ایم پستول کی گولیوں کے خول ملے ہیں۔ کراچی پولیس اس واقعے کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچائے گی۔‘
آصف اعجاز شیخ نے مزید کہا کہ ’الفجر نامی کوئی تنظیم نہیں ہے، یہ محض ایک چینل ہے۔ جیسے سوشل میڈیا پر لوگ پیجز بنا لیتے ہیں۔
’اسی طرح الفجر کے نام سے ایک پیج بنا ہوا ہے جس کے ذریعے یہ خبر سامنے آئی تاہم جو گروہ دہشت گردی کے واقعے میں ملوث تھا اس کا نام سامنے نہیں آیا۔‘
ڈی ایس پی سی ٹی ڈی علی رضا کراچی پولیس کے سابقہ عہدیدار چوہدری اسلم کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے اور انچارج سی ٹی ڈی لیاری گینگ وار سیل تھے۔
پولیس کے مطابق ڈی ایس پی علی رضا پر حملے کے سلسلے میں سی ٹی ڈی کی جانب سے تفتیش جاری ہے۔
آصف اعجاز شیخ نے بتایا کہ ’علی رضا ایک دلیر افسر تھے جن کے کیریئر پر بات کی جائے تو وہ کبھی بھی اپنے فرائض سے پیچھے نہیں ہٹے۔
’انہوں نے بے شمار ہائی پروفائل کیسز پر کام کیا ہے جس میں وہ نہ صرف ٹی ٹی پی اور فرقہ وارانہ گروپوں بلکہ لیاری گینگ وار اور ایم کیو ایم لندن کے کارکنوں کے خلاف بھی سرگرم رہے۔‘
کرائم سین پر کیمرہ نہ ہونے کی وجہ سے تحقیقات میں مشکلات کا سامنا: پولیس
سی ٹی ڈی کے سینیئر عہدیدار راجا عمر خطاب نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں علی رضا کی ذاتی زندگی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’بحیثیت انسان وہ بہت ملنسار تھے۔ انسانی خدمت میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔
’ان کی شادی تو نہیں ہوئی تھی لیکن انہوں نے بہت سے گھروں کو آباد کیا۔ فقیر طبیعت کی شخصیت کے مالک تھے۔ کبھی کسی سے تلخ کلامی تک نہیں کی۔ ان کی موت سے پورا محکمہ افسردہ ہے۔‘
راجا عمر خطاب نے علی رضا پر قاتلانہ حملےکے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اتوار کی شام وہ کریم آباد کے لیے روانہ ہوئے جو ان کا پرانہ محلہ تھا۔
’وہ اکثر پرانے دوستوں سے ملنے کریم آباد جاتے تھے۔ ڈی ایس پی علی رضا نے بہت سے ہائی پروفائل کیسز میں کام کیا تو انہیں سکیورٹی بھی فراہم کی گئی تھی۔ بلٹ پروف گاڑی ان کے پاس تھی جو ان کی ذاتی گاڑی تھی۔
’کیونکہ وہ میرے اچھے دوست تھے تو ان کو کئی بار سمجھایا کہ اس طرح روز نہ جایا کریں، لیکن جو ہوا وہ افسوس ناک ہے۔
راجا عمر خطاب کے مطابق: ’انہیں باقاعدہ ٹارگٹ کیا گیا ہے۔ ممکنہ طور پر دہشت گردوں نے علی رضا کا گاڑی سے اترنے کا انتظار کیا اور جیسے ہی وہ اپنی گاڑی سے اترے انہیں اندھا دھند گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’جس کے نتیجے میں چار گولیاں ڈی ایس پی علی رضا کو لگیں جبکہ علاقے کا سکیورٹی گارڈ بھی فائرنگ کی زد میں آیا جسے تین گولیاں لگنے سے وہ جان کی بازی ہار گیا۔‘
ایس ایس پی سینٹرل ذیشان صدیقی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’دو بار کرائم سین کا دورہ کیا ہے۔ پولیس حکام کی جانب سے مختلف زاویوں پر تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے، اور مختلف ذرائع سے معلومات حاصل کی جا رہی ہیں۔‘
ان کے مطابق: ’بتایا گیا ہے کہ سی ٹی ڈی کے علاوہ دیگر ادارے بھی اس کیس پر کام کر رہے ہیں۔ ایس ایس پی کے مطابق کرائم سین پر سی سی ٹی وی کیمرے نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات ہیں۔
’جبکہ دوران تفتیش عینی شاہد نے بتایا کہ دو مسلح افراد موٹر سائیکل پر تھے جنہوں نے فائر کیے۔‘
پیر کو کراچی کے سینٹرل پولیس آفس میں علی رضا کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، صوبائی وزیر داخلہ ضیاالحسن لنجار اور ڈی ایس پی پولیس سمیت اعلی حکام علی رضا کی نماز جنازہ میں شریک ہوئے۔