سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق عرب رہنماؤں نے جمعے کو ریاض میں ایک غیر رسمی اجلاس کے دوران ’فلسطینی کاز‘ اور غزہ میں تعمیر نو کے لیے مشترکہ کوششوں پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
سعودی پریس ایجنسی (ایس پی اے) کے مطابق، اس غیر رسمی اجلاس میں خلیجی ممالک، مصر اور اردن کے رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔
عرب ممالک، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس منصوبے کا متبادل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے تحت اسرائیلی جارحیت سے تباہ غزہ کو ایک بین الاقوامی سیاحتی مقام میں تبدیل کرنے اور فلسطینیوں کو مصر اور اردن میں دوبارہ آباد کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔
ٹرمپ کے منصوبے نے عرب ریاستوں کو مخالفت میں متحد کر دیا ہے، لیکن جنگ سے تباہ حال فلسطینی سرزمین پر کس کو حکومت کرنا چاہیے اور اس کی تعمیر نو کے لیے فنڈز کیسے ادا کیے جائیں پر اختلافات تاحال برقرار ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق مصر اور اردن نے اس تجویز کو قومی سلامتی کے خدشات کے پیش نظر مسترد کر دیا ہے، تاہم عرب ممالک کی جانب سے اس کے خلاف کوئی مؤثر متبادل منصوبہ اب تک سامنے نہیں آیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اجلاس کے بعد تمام رہنماؤں کی ایک تصویر جاری کی گئی اور ساتھ ہی بیان میں بتایا گیا کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی دعوت پر ہونے والے اس اجلاس میں اردن کے شاہ عبداللہ اور ولی عہد حسین، قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی، متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید النہیان اور ان کے قومی سلامتی کے مشیر، کویت کے امیر شیخ مشعل الاحمد الصباح اور بحرین کے ولی عہد سلمان بن حمد الخلیفہ نے شرکت کی۔
مذاکرات سے واقف ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ اجلاس میں بنیادی طور پر مصر کی طرف سے پیش کردہ ایک منصوبے پر غور کیا گیا، جس کے تحت تین سالوں میں خلیجی اور دیگر عرب ممالک کی جانب سے 20 ارب ڈالر کی فنڈنگ کی تجویز شامل تھی، تاہم اس بارے میں کوئی سرکاری تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
ایس پی اے کے مطابق، رہنماؤں نے مصر کی میزبانی میں چار مارچ کو ہونے والے عرب لیگ کے ہنگامی اجلاس کا خیرمقدم کیا۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ وہ غزہ کے فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کو مسترد کرتے ہیں اور مسئلے کے حل کے لیے ایک ایسی امن پالیسی کی حمایت کرتے ہیں جس میں فلسطینی ریاست کا قیام اسرائیل کے ساتھ موجود ہو۔