امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کی جانب سے روس-یوکرین جنگ کے حل کی کوششوں کے تحت مذاکرات کی میزبانی کو ’شاندار اقدام‘ قرار دیا اور ریاض میں ان مذاکرات کے انعقاد میں کردار ادا کرنے پر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا شکریہ ادا کیا۔
بدھ کو ٹرمپ نے میامی، فلوریڈا میں FII ترجیحی سعودی سرمایہ کاری کے اجلاس میں شرکت کے دوران کہا کہ یہ تنازع، جسے اس ماہ تین سال مکمل ہو چکے ہیں، اگر وہ صدر ہوتے تو کبھی شروع ہی نہ ہوتا۔
عرب نیوز کے مطابق انہوں نے کہا: ’یوکرین کے صدر وولودی میر زیلینسکی نے امریکہ کو 350 ارب ڈالر خرچ کر کے ایسی جنگ میں دھکیل دیا، جو جیتی نہیں جا سکتی تھی، جس کو شروع کرنا ضروری نہیں تھا، اور جو میرے صدر ہونے کی صورت میں کبھی شروع ہی نہ ہوتی۔‘
ٹرمپ نے مزید کہا کہ یوکرین، امریکہ کی مداخلت کے بغیر اس جنگ کو کبھی ختم نہیں کر سکتا۔
منگل کو ریاض میں ہونے والے اجلاس میں اعلیٰ سطحی امریکی اور روسی حکام نے شرکت کی تاکہ یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات پر غور کیا جا سکے۔ اس اجلاس میں سینئر سعودی حکام بھی شریک تھے، تاہم یوکرینی نمائندے موجود نہیں تھے۔
ٹرمپ نے کہا کہ اگر زیلینسکی چاہتے تو وہ بھی ان مذاکرات میں شرکت کر سکتے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ دونوں فریقین نے مجموعی طور پر تین اہم نکات پر اتفاق کیا:
1. واشنگٹن اور ماسکو میں اپنی اپنی سفارت خانوں میں عملے کی بحالی۔
2. یوکرین کے امن مذاکرات میں معاونت کے لیے اعلیٰ سطحی ٹیم کا قیام۔
3. قریبی تعلقات اور اقتصادی تعاون کے امکانات کا جائزہ لینا۔
ٹرمپ نے امید ظاہر کی کہ جلد ہی جنگ بندی ممکن ہو سکے گی۔
ان کی تقریر میں حکومتی اخراجات میں کمی، توانائی کی پیداوار میں اضافے، اور خارجہ پالیسی کے اہداف سمیت مختلف امور پر گفتگو کی گئی۔
تقریب میں شریک نمایاں شخصیات میں یاسر الرمیان (گورنر، سعودی پبلک انویسٹمنٹ فنڈ)، ایلون مسک (نئے امریکی وفاقی ادارے ڈی او جی ای کے سربراہ) اور شہزادی ریما بنت بندر آل سعود (امریکہ میں سعودی سفیر) شامل تھے۔