جب نیٹو کے بانی ارکان نے چار اپریل 1949 کو شمالی اٹلانٹک معاہدے پر دستخط کیے تو انہوں نے ’اجتماعی دفاع اور امن و سلامتی کے تحفظ کی اپنی کوششوں کو متحد کرنے کا عزم‘ ظاہر کیا۔
ان مقاصد کو سب سے بڑا خطرہ ایک دشمن طاقت کی طرف سے فوجی حملہ تھا۔ یہ ایک ایسا امکان تھا، جس کی وجہ سے معاہدے کی سب سے مشہور شق یعنی آرٹیکل 5 میں کہا گیا کہ ’فریقین اس بات پر متفق ہیں کہ یورپ یا شمالی امریکہ میں ان میں سے ایک یا زیادہ کے خلاف مسلح حملہ، ان سب کے خلاف حملہ سمجھا جائے گا۔‘
آج کئی دہائیوں کے بعد اتحادی اراکین کو درپیش خطرات کافی حد تک تبدیل ہو چکے ہیں۔ شمالی امریکہ یا یورپ میں کسی بیرونی ریاست کی باقاعدہ فوج کی طرف سے حملے کا امکان بہت کم ہے۔ اس کی جگہ اتحاد کو دہشت گردی اور جوہری پھیلاؤ سے لے کر قزاقی، سائبر حملوں اور توانائی کی فراہمی میں خلل جیسے مزید وسیع چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
2024 میں نیٹو اجتماعی دفاع کے 75 سال مکمل ہونے کا جشن منا رہا ہے۔
اپنے قیام کے بعد سے ٹرانس اٹلانٹک الائنس 12 بانی ارکان سے بڑھ کر 32 رکن ممالک تک پہنچ چکا ہے اور یہ تمام ممالک اپنے لوگوں کو محفوظ رکھنے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔
جمہوریت، شخصی آزادی، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کی مشترکہ اقدار سے جڑے اتحادیوں پر مشتمل نیٹو 11 جولائی کو واشنگٹن ڈی سی میں سربراہی اجلاس میں اپنی سالگرہ منا رہا ہے، جہاں اس کے بانی معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔
ماہرین کے مطابق اگر نیٹو کو جہاں کہیں بھی خطرات پیدا ہوں، ان کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہوگا تو اتحاد میں امریکی دلچسپی ختم ہو جائے گی۔
امریکی صدر جو بائیڈن جمعرات کو رات گئے ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مباحثے میں خراب کارکردگی کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس نیٹو سربراہی اجلاس کے موقع پر کریں گے، جس کے نتیجے میں ان کی انتخابی مہم کی قسمت کا فیصلہ ہو سکتا ہے۔
نیٹو سربراہ اجلاس میں دنیا کی نظریں 81 سالہ جو بائیڈن پر ہوں گی کیونکہ وہ اپنی ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے اپنی عمر اور صحت کے حوالے سے عہدہ چھوڑنے کے بڑھتے ہوئے مطالبے کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
نیٹو کے رہنما جمعرات کو یوکرین کے صدر ولادی میر زیلنسکی کے ساتھ بات چیت کریں گے اور ایشیائی شراکت داروں کے ساتھ ملاقات میں چین کی طرف سے درپیش چیلنجوں کی طرف توجہ مبذول کروائیں گے۔
32 ممالک پر مشتمل اتحاد نے روس کے خلاف اپنے عزم اور کیئف کی حمایت کا اظہار کرنے کے لیے امریکی دارالحکومت میں سربراہی اجلاس کو دھوم دھام سے استعمال کیا ہے۔
ان کے اجتماع کو امریکہ میں سیاسی غیر یقینی صورت حال نے دبوچا ہوا ہے کیونکہ صدر جو بائیڈن اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
زیلنسکی اپنے نیٹو ہم منصبوں کے ساتھ امریکی دارالحکومت کے وسط میں واقعے ایک بڑے کنونشن سینٹر میں ملاقاتیں کریں گے، جس کے بعد انہیں یوکرین کی فضا کے دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے نئے ہتھیاروں کا وعدہ کیا گیا ہے۔
تاہم انہوں نے کیئف کے حامیوں، خاص طور پر امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ مزید آگے بڑھیں، جس میں ان کی مسلح افواج کو روس کے اندر حملہ کرنے کی صلاحیت دینا بھی شامل ہے۔
کونسل فار فارن ریلیشنز کی ایک خصوصی رپورٹ میں جیمز ایم گولڈ گیئر نے اس سوال کا جواب دیا ہے کہ بیسویں صدی میں یورپ میں امن قائم رکھنے کے بعد نیٹو اکیسویں صدی کے چیلنجوں سے کیسے ہم آہنگ ہو سکتی ہے۔ گولڈ گیئر کا کہنا ہے کہ نیٹو امریکہ اور یورپ کے لیے اہمیت کا حامل ہے، تاہم وہ لکھتے ہیں کہ ’موثر رہنے کے لیے اسے اجتماعی دفاع کے اپنے نقطہ نظر کو وسیع کرنا ہوگا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اس کا مطلب یہ ہے کہ آج نیٹو کے ارکان کو درپیش خطرات کی مکمل رینج کو تسلیم کرنا اور اس بات کی تصدیق کرنا ہے کہ اتحاد کسی ایسے اقدام کا اجتماعی طور پر جواب دے گا (چاہے وہ کسی بیرونی ریاست کی طرف سے ہو یا غیر ریاستی ادارے کی طرف سے) جو کسی رکن ریاست کی سیاسی یا معاشی سلامتی یا علاقائی سالمیت کو خطرے میں ڈالتا ہے۔‘
اس بحث کا ایک مرکزی حصہ افغانستان سمیت یورپ سے باہر تنازعات میں نیٹو کی شمولیت سے متعلق ہے۔ اس شمولیت کے ارد گرد کے سوالات کا تجزیہ کرتے ہوئے گولڈ گیئر روایتی آرٹیکل 5 کے خطرات اور شمالی بحراوقیانوس کے معاہدے کے علاقے سے باہر پائے جانے والے خطرات کے مابین کسی بھی فرق کو مسترد کرتے ہیں۔
اس کے بجائے وہ دلیل دیتے ہیں کہ یہ دھمکیاں ایک قسم کی ہی ہوسکتی ہیں۔ گولڈ گیئر کا کہنا ہے کہ اگر نیٹو اس حقیقت کو تسلیم کرنے اور جہاں کہیں بھی خطرات پیدا ہوتے ہیں، ان کا مقابلہ کرنے سے قاصر رہا تو اتحاد میں امریکی دلچسپی کم ہو جائے گی۔
کئی دیگر امور کا جائزہ لیتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا کہ نیٹو کو آسٹریلیا اور جاپان جیسی غیر یورپی جمہوریتوں کے ساتھ اپنے تعاون کو بڑھانا چاہیے۔ آخر میں توسیع کے معاملے پر رپورٹ جارجیا اور یوکرین کے لیے دروازے کھلے رکھنے کی موجودہ پالیسی کی حمایت کرتی ہے جبکہ اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ وہ جلد اتحاد میں شامل نہیں ہوں گے۔
نیٹو چھ دہائیوں سے یورپ اور امریکہ کی خارجہ پالیسی میں سلامتی کا سنگ بنیاد رہا ہے، لیکن اس طرح کے مرکزی کردار کو جاری رکھنے کی اس کی صلاحیت واضح نہیں ہے۔ نیٹو کا مستقبل اس بات سے جڑا ہے کہ اسے اور اس کے ارکان کو آج کے سٹریٹجک ماحول میں نیٹو کی اہمیت کو برقرار رکھنے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ نتیجہ ایک اہم کام ہے جو بحر اوقیانوس کے دونوں اطراف کے پالیسی سازوں کے لیے مفید تجزیہ اور عملی سفارشات کو یکجا کرتا ہے۔
ادھر واشنگٹن میں اجلاس کے مجوزہ بیان سے متعلق یورپی یونین میں چینی مشن کے ترجمان نے کہا کہ یہ ’جارحانہ بیان بازی‘ سے بھرا ہوا ہے اور چین سے متعلق مواد اشتعال انگیزی اور جھوٹ پر مبنی ہے۔
اعلامیے کے مسودے میں کہا گیا کہ چین یوکرین میں روس کی جنگی کوششوں کا فیصلہ کن معاون بن گیا ہے اور بیجنگ یورپ کی سلامتی کے لیے منظم چیلنج بنا ہوا ہے۔
چینی مشن کی جانب سے جمعرات کو جاری ایک بیان میں کہا گیا: ’جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، چین یوکرین کے بحران کا خالق نہیں ہے۔‘
ایک صحافی کے سوال کے جواب میں ترجمان نے کہا کہ واشنگٹن میں نیٹو سربراہ اجلاس کا اعلامیہ سرد جنگ کی ذہنیت اور جارحانہ بیان بازی سے بھرا ہے اور چین سے متعلق مواد اشتعال انگیزی، جھوٹ اور بدکلامی سے بھرا ہوا ہے۔
نیٹو ممالک کے رہنماؤں نے یوکرین کے لیے رکنیت کے وعدے پر زور دیا، روس کے لیے چین کی حمایت پر مضبوط موقف اختیار کیا اور اس اعلامیے نے چین کے بارے میں نیٹو کے ماضی کے بیانات کو تقویت دی ہے۔
ترجمان نے کہا کہ یوکرین کے معاملے پر چین کا بنیادی موقف امن مذاکرات اور سیاسی تصفیے کو فروغ دینا ہے، جسے بین الاقوامی برادری نے بڑے پیمانے پر تسلیم کیا اور سراہا ہے۔
بدھ کو چین کی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا: ’ہم نیٹو کو علاقائی دفاعی اتحاد کے طور پر پیش کرنے سے زیادہ خود کو ایشیا بحر الکاہل میں داخلے اور اس خطے میں خوشحالی اور استحکام میں خلل ڈالنے کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں۔‘