جرمنی: انتہائی دائیں بازو کی جماعت کی کامیابی سے مسلمانوں کو خطرات؟

اے ایف ڈی کی کامیابی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جرمن عوام میں پناہ گزینوں اور اسلام مخالف جذبات کو پذیرائی مل رہی ہے۔

جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت آلٹرنیٹو فار جرمنی (اے ایف ڈی) کے اعزازی چیئرمین الیگزینڈر گاؤلینڈ، برنڈ باؤمن، شریک رہنما ایلس ویڈل، شریک رہنما ٹینو کروپلا، سٹیفن برانڈنر اور بیٹریکس وان اسٹورچ، 25 فروری کو جرمن پارلیمانی گروپ کے دو جنرل کمپاؤنڈ میں 2025 کے اجلاس کے بعد اپنی پارٹی کے پہلے پارلیمانی گروپ کے اجلاس کے بعد پوز دے رہے ہیں۔ (ٹوبیاس شوارز/ اے ایف پی)

23 فروری کو برلن میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت آلٹرنیٹو فار جرمنی (اے ایف ڈی) کے بھرے ہوئے ہیڈکوارٹر میں جب جرمنی کے انتخابی نتائج کا اعلان کیا گیا تو ہال میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ یہ جرمنی کی دوسری بڑی سیاسی جماعت بن چکی تھی۔

پارٹی کی قیادت، جس میں اس کی فرنٹ پرسن ایلس ویڈیل بھی شامل ہیں اور جرمن جھنڈے لہرانے والے سینکڑوں حامیوں نے فوری طور پر پارٹی کی 21 فیصد نشستوں کو واضح فتح قرار دیا، جو 2021 کے نتائج سے دوگنی کامیابی ہے، حالانکہ قدامت پسند کرسچن ڈیموکریٹس (سی ڈی یو) نے 8 فیصد پوائنٹس سے زیادہ ووٹ حاصل کیے اور اس کے ساتھ ہی حکومت تشکیل دینے کا اسے مینڈیٹ بھی ملا۔

اس جیت کا مطلب ہے کہ جرمنی کی سیاست میں دائیں بازو کی جماعتوں کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے۔ اے ایف ڈی کی کامیابی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جرمن عوام میں پناہ گزینوں اور اسلام مخالف جذبات کو پذیرائی مل رہی ہے۔ اس جماعت نے اپنی حمایت کو دوگنا کر لیا ہے۔

اے ایف ڈی کو انتخابات میں زیادہ تر کامیابیاں مشرقی جرمنی سے حاصل ہوئی ہیں۔

اے ایف ڈی کی بنیاد 2013 میں جرمنوں کی مدد کے لیے رکھی گئی تھی جنہوں نے 2007-2008 کے مالیاتی بحران کے بعد یونان کے خودمختار قرضوں کی ادائیگی سے انکار کر دیا تھا۔ 2015 کے بعد انتہائی دائیں بازو کے لوگوں نے پارٹی پر مکمل قبضہ کر لیا تھا، خاص طور پر پناہ گزینوں کے بحران کے عروج پر، جس دوران مشرق وسطیٰ سے کم از کم 1.3 ملین تارکین وطن نے یورپ میں پناہ حاصل کی تھی۔

الٹرنیٹیو فار جرمنی (اے ایف ڈی) ایک انتہائی دائیں بازو کی جماعت ہے جس کے نظریات یورپی یونین کی پالیسیوں کے خلاف ہیں اور جرمنی کی خودمختاری کو ترجیح دیتی ہے۔

امیگریشن کی مخالفت: یہ جماعت خاص طور پر مسلم امیگریشن کے خلاف ہے اور جرمنی کی سرحدوں کو مضبوط بنانے کی بات کرتی ہے۔ 2015 میں جرمنی نے بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کو قبول کیا، جس کے بعد اے ایف ڈی نے امیگریشن مخالف وقف اپنایا۔ اس نے ان لوگوں کی حمایت حاصل کی جو پناہ گزینوں کی آمد سے متعلق خدشات رکھتے تھے۔ اسی وجہ سے انتخابی نتائج کے سامنے آنے کے بعد سے اس ملک میں مقیم ترک برادری اور جرمنی کے مسلمانوں میں تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اے ایف ڈی نئی حکومت کا حصہ نہیں ہوگی لیکن اس کے پاس اب بھی پارلیمنٹ میں بحث کا رخ موڑنے اور قانون سازی کو ویٹو کرنے کا اختیار ہے۔

غیر سرکاری یورپی ترک تنظیم یونین آف انٹرنیشنل ڈیموکریٹس (یو آئی ڈی) کے سابق سربراہ صالح یلماز نے کہا، ’انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کے لیے ووٹروں کی حمایت میں یہ اضافہ غیر ملکیوں کے خلاف نفرت کو ہوا دے گا اور مسلمانوں اور ترکوں کے لیے مزید خطرات پیدا کرے گا۔‘

جرمنی میں ترک برادری کی، جو یورپ میں سب سے بڑی کمیونٹی میں سے ایک ہے، جس کی آبادی 30 لاکھ سے زیادہ ہے۔ انہیں دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی کی تعمیر نو کے لیے لایا گیا تھا۔

ایلون مسک کے اے ایف ڈی کے بارے بیانات: امریکی صدر کے قریبی ساتھی اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس کے مالک ایلون مسک نے اے ایف ڈی کی کامیابی پر مبارکباد پیش کی ہے۔ کامیابی کی خبر آنے کے کچھ دیر کے بعد ایلون مسک نے ایکس پر اپنے بیان میں ایلس ویڈل کو مبارکباد دی اور کہا کہ اگلے انتخابات میں اے ایف ڈی اکثریت سے کامیابی حاصل کرے گی۔ 

اس سے قبل ایلون مسک نے 28 جنوری 2025 کو جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی اے ایف ڈی پارٹی کی ایک مہم کے پروگرام میں ایک حیرت انگیز طور پر ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی تھی جس کے دوران انہوں نے تقریباً 4500 حامیوں کے ایک ہجوم سے کہا تھا کہ ’بچوں کو اپنے والدین کے گناہوں کا قصوروار نہیں ہونا چاہیے، ان کے پردادا کو چھوڑ دو‘۔

ایلون مسک نے اے ایف ڈی کی حمایت کا اعلان کیا تھا جسے جرمنی کی قومی سلامتی کی سروس نے ایک مشتبہ شدت پسند تنظیم قرار دیا تھا۔

قومی تحفظ پسندی: اے ایف ڈی قومی مفادات کو ترجیح دیتی ہے اور عالمی معاہدوں اور تنظیموں کے خلاف ہے جو جرمنی کی خودمختاری کو محدود کرتے ہیں۔یہ موقف ان لوگوں کو متوجہ کرتا ہے جو یورپی یونین کے اثر و رسوخ کو کم کرنا چاہتے ہیں۔

اسلام کی مخالفت: یہ جماعت اسلام کو جرمن ثقافت اور معاشرت کے لیے خطرہ سمجھتی ہے اور اس کے خلاف سخت موقف رکھتی ہے۔

سخت قانون کی حمایت: اے ایف ڈی جرائم کے خلاف سخت قوانین اور سزاؤں کی حمایت کرتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مقبولیت میں اضافے کی وجہ

جرمنی میں معاشی مشکلات اور بے روزگاری نے بھی اے ایف ڈی کی مقبولیت میں اضافہ کیا ہے، کیونکہ یہ جماعت ان مسائل کو حل کرنے کے وعدے کرتی ہے۔ حالیہ سیاسی عدم استحکام اور حکومت کی ناکامیوں نے بھی اے ایف ڈی کی حمایت میں اضافہ کیا ہے، کیونکہ لوگ متبادل قیادت کی تلاش میں تھے۔

اس حقیقت کے باوجود کہ جرمنی کی دیگر جماعتیں اس کے ساتھ مل کر حکومت کرنے سے انکار کرتی ہیں، اے ایف ڈی - ایک انتہا پسند غیر ملکیوں سے نفرت کرنے والی جماعت جس کا تعلق نیو نازیوں سے ہے- یقینی طور پر معمول سے باہر نکل کر جرمن سیاست کے مرکز میں پہنچ گئی ہے۔

یہ اب جرمنی کی دوسری سب سے مضبوط جماعت ہے۔ پارلیمان یعنی بنڈس ٹیگ میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت، محنت کش طبقے کی پسندیدہ جماعت، جرمنی کی مشرقی ریاستوں میں نمبر ایک پارٹی، نئی امریکی انتظامیہ کی محبوب اور یہ ایک جرمن ریاست کے علاوہ تمام علاقائی مقننہ اور یورپی یونین کی پارلیمنٹ میں بھی نمائندگی رکھتی ہے، جہاں اسے ہم خیال اتحادیوں کی حمایت حاصل ہے۔

دوسری جانب کرسچن ڈیموکریٹک یونین کے رہنما فریڈرک مرز جرمنی کے اگلے چانسلر بننے کی تیاری کر رہے ہیں۔

ان کی پارٹی نے 28 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کیے لیکن اب سوال یہ ہے کہ وہ کس کے ساتھ اتحاد کرے گی؟

انہتر سالہ مرز کو ان کے حامی یورپ کے اعتماد کے بحران کے لیے ایک رکاوٹ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ جرمنی کو مضبوط قیادت فراہم کرنے اور اپنے ملک کے بہت سے مسائل کو چار سال کے اندر حل کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔

آسٹریا، بیلجیئم، فرانس، اٹلی اور نیدرلینڈز میں اسی طرح کی سیاسی پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ