کرد عسکریت پسند تنظیم کُردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) نے ترکی کے ساتھ 40 سالہ مسلح جدوجہد کے بعد ہفتے کو جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔
اس اعلان سے قبل قیدی رہنما عبداللہ اوجلان نے بین القوامی طور پر کالعدم قرار دی گئی تنظیم کو تحلیل کرنے کی تاریخی اپیل کی تھی۔
اوجلان کی جانب سے اسی ہفتے تنظیم ختم کرنے اور ہتھیار ڈالنے کی اپیل کی گئی تھی، جس کے بعد یہ پی کے کے کا پہلا باضابطہ ردعمل ہے۔
یہ کالعدم تنظیم 40 سال سے زائد عرصے تک ترک ریاست کے خلاف بر سر پیکار رہی ہے۔
پی کے کے کی ایگزیکٹو کمیٹی نے اے این ایف نیوز ایجنسی کے ذریعے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا: ’قائد اپو (اوجلان) کے امن اور جمہوری معاشرے کے قیام کی اپیل پر عمل درآمد کی راہ ہموار کرنے کے لیے، ہم آج سے جنگ بندی کا اعلان کرتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بیان میں مزید کہا گیا: ’ہم اس اپیل کے تمام نکات سے متفق ہیں اور ہم اس پر عمل درآمد کے لیے تیار ہیں۔‘
پی کے کے کو ترکی، امریکہ، اور یورپی یونین نے دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔ یہ تنظیم 1984 سے مسلح بغاوت کر رہی تھی، جس کا مقصد ترکی میں کردوں کے لیے ایک الگ ریاست کا قیام تھا۔
کرد آبادی ترکی کی آٹھ کروڑ 50 لاکھ مجموعی آبادی کا تقریباً 20 فیصد ہے۔
1999 میں اوجلان کی گرفتاری کے بعد کئی بار اس تنازع کو ختم کرنے کی کوششیں کی گئیں، جس کے باعث 40 ہزار سے زائد جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔
2015 میں آخری امن مذاکرات ناکام ہونے کے بعد کسی بھی قسم کی بات چیت بند ہو گئی تھی۔
تاہم، اکتوبر 2023 میں صدر رجب طیب اردوغان کے ایک سخت گیر قوم پرست اتحادی نے اس شرط پر مفاہمت کی پیشکش کی کہ اوجلان تشدد ترک کر دیں۔
اردوغان نے اس مفاہمت کی حمایت کی، لیکن اس کے ساتھ ہی حکومت نے اپوزیشن پر دباؤ بڑھا دیا اور سینکڑوں سیاستدانوں، کارکنوں اور صحافیوں کو گرفتار کر لیا۔
اوجلان سے ان کی جزیرہ نما جیل میں کئی ملاقاتوں کے بعد، کردوں کی حامی ڈی ای ایم پارٹی نے جمعرات کو ان کا پیغام پہنچایا، جس میں پی کے کے سے ہتھیار ڈالنے اور تنظیم کو تحلیل کرنے کے لیے کانگریس بلانے کی اپیل کی گئی تھی۔