کھٹمنڈو میں پاکستانی مشن کی عمارت تعمیر نہ ہونے سے 18 کروڑ سے زائد کا نقصان

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ کٹھمنڈو میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے دفتر اور رہائشی کمپلیکس کی تعمیر میں تاخیر کی وجہ سے کرائے کی مد میں 18 کروڑ 10 لاکھ روپے کے اخراجات ہوئے۔

16 مئی 2023 کو اسلام آباد میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ایک اجلاس کا منظر(فائل فوٹو/انڈپینڈنٹ اردو)

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں منگل کو انکشاف کیا گیا ہے کہ نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں سفارت خانے کی عمارت تعمیر نہ ہونے کی وجہ سے کرائے کی مد میں 18 کروڑ 10 لاکھ روپے کا نقصان ہوا، حالانکہ اُس وقت مشن کے پاس تعمیر کے لیے 14 لاکھ ڈالر موجود تھے۔

چیئرمین جنید اکبر کی زیر صدارت پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ کٹھمنڈو میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے دفتر اور رہائشی کمپلیکس کی تعمیر میں تاخیر کی وجہ سے کرائے کی مد میں یہ اخراجات ہوئے۔

آڈٹ حکام نے بتایا کہ 2008 میں عمارت بنانے کی منظوری دی گئی تھی۔

دوسری جانب دفتر خارجہ نے موقف اختیار کیا کہ ’کٹھمنڈو میں ہمارے پاس پلاٹس ہیں لیکن فنڈنگ نہ ہونے کی وجہ سے عمارت نہیں بنا سکے۔‘

آڈٹ حکام نے کہا کہ ’اس وقت مشن کے پاس 14 لاکھ ڈالر موجود تھے، اس عمارت کے لیے پلاٹ پہلے سے خریدا جا چکا ہے۔ چار لاکھ 58 ہزار ڈالر خرچ ہو چکے ہیں۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ پارلیمنٹ کو آگاہ کریں۔‘

کمیٹی رکن ثنا اللہ مستی خیل نے سوال کیا کہ ایک پراجیکٹ کو درمیان میں کیوں چھوڑا گیا؟

جبکہ جبکہ حنا ربانی کھر نے کہا کہ ’کرائے کی مد میں حکومت بہت سارے ممالک میں پیسے ضائع کر رہی ہے، اگر مورٹگیج کی طرف جاتے تو بہت ساری عمارتیں ہماری ملکیت میں ہوتیں۔‘

بعدازاں کمیٹی نے یہ معاملہ ذیلی کمیٹی کے سپرد کر دیا۔

وزارت خارجہ کے حکام کی دوہری تنخواہیں

اجلاس کے دوران وزارت خارجہ کے افسران کو دوہری ادائیگیوں کا معاملہ بھی زیر غور آیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ دوہری ادائیگیوں کی وجہ سے افسران کو 50 لاکھ روپے سے زائد کی ادائیگی کی گئی اور انہیں تنخواہوں اور الاؤنسز کی مد میں ڈبل ادائیگی کی گئی۔

 دفتر خارجہ کے حکام نے کہا کہ ان افسران کو معلوم نہیں تھا کہ دوہری تنخواہ آ رہی ہے۔

کمیٹی کے اراکین نے اس بات پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ کمیٹی رکن سینیٹر افنان اللہ نے کہا: ’یہ تو کمیٹی کو بے وقوف بنانے والی بات ہے۔‘

چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سوال کیا کہ اُس وقت تنخواہیں واپس کیوں نہیں کیں؟

بعدازاں کمیٹی نے ایک ماہ میں اس معاملے کی انکوائری کرنے کی ہدایت کر دی۔

بغیر اجازت پانچ کروڑ روپے تنخواہوں کی مد میں ادائیگی

اجلاس کے دوران برطانیہ کے شہر لندن اور فرانس کے شہر پیرس میں مشنز کی جانب سے اجازت کے بغیر تقریباً پانچ کروڑ روپے کی تنخواہیں ادا کرنے کا معاملہ بھی زیر غور آیا اور کنٹیجینٹ پیڈ سٹاف پر چار کروڑ 90 لاکھ روپے کے غیر مجاز اخراجات سے متعلق آڈٹ اعتراض کا جائزہ لیا گیا۔

وزارت خزانہ کے حکام نے کہا کہ جب کیس ان کے پاس آئے گا تو جائزہ لیں گے، جس پر کمیٹی رکن نوید قمر نے مکالمہ کرتے ہوئے سوال کیا: ’کیا چار سال تک آپ تک کیس نہیں پہنچا، جو اس پر ایکشن نہیں لیا گیا؟‘

بعد ازاں چیئرمین پی اے سی نے 15 روز میں معاملے کو حل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ’وزارت خزانہ کے سامنے معاملہ اٹھایا جائے۔‘

اس معاملے کے ساتھ وزیراعظم کے سیلاب ریلیف فنڈ کی مد میں وصول ایک کروڑ 10 لاکھ روپے کینیا سے پاکستان نہ بھیجے جانے کے معاملے پر بھی بحث ہوئی۔

آڈٹ حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ نیروبی میں 11 ملین روپے کی رقم بینک اکاؤنٹ میں جمع کی گئی لیکن پاکستان نہیں بھیجی گئی، جس پر سیکریٹری وزارت خارجہ نے کہا: ’کینیا میں بینکنگ کے مسائل کی وجہ سے یہ پیسے پاکستان نہیں آ سکتے۔‘

بعد ازاں کمیٹی نے رقم کی ایڈجسٹمنٹ کرنے کی ہدایت کر دی۔

10 کروڑ روپے کی رسیدیں سرکاری خزانے میں جمع نہ کروانے کا معاملہ

اجلاس میں جرمنی کے شہر برلن میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے تقریباً 10 کروڑ روپے کی رسیدیں سرکاری خزانے میں جمع نہ کروانے کا معاملہ بھی زیر غور آیا۔

اکٹھی گئی یہ رقم ایک سال تک حکومت کے خزانے میں جمع نہیں کروائی گئی۔

اجلاس کے دوران آڈٹ حکام نے کہا کہ مرکزی اکاؤنٹ کے ساتھ ایک اور اکاؤنٹ کھولا گیا، جس پر دفتر خارجہ حکام نے کہا کہ ’اس قسم کی غلطی دوبارہ نہیں کریں گے، یہ ضابطے کی غلطی ہے۔‘

بعدازاں کمیٹی نے معاملہ آئندہ اجلاس کے لیے موخر کر دیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان