کار سرکار میں مداخلت، مبینہ فائرنگ کیس: امِ حسان کی ضمانت پر رہائی کا حکم

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے کارِ سرکار میں مداخلت اور سرکاری عملے پر مبینہ فائرنگ کے کیس میں لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز کی اہلیہ اور جامعہ حفصہ کی پرنسپل امِ حسان اور دیگر کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواستیں منظور کرلیں۔

اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے کارِ سرکار میں مداخلت اور سرکاری عملے پر مبینہ فائرنگ کے کیس میں لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز کی اہلیہ اور جامعہ حفصہ کی پرنسپل امِ حسان اور دیگر کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواستیں بدھ کو منظور کرتے ہوئے ان کی ضمانت پر رہائی کا حکم دے دیا۔

اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج طاہر عباس سپرا نے فیصلہ سنایا۔

گذشتہ ماہ 19 فروری کو امِ حسان کو اسلام آباد کے علاقے مارگلہ ٹاؤن میں واقع مدنی مسجد کے خطیب کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔

ام حسان کے خلاف درج ایف آئی آر کے متن کے مطابق: ’اسلام آباد کے علاقے مارگلہ ٹاؤن میں ناجائز تجاوزات کے خلاف جاری سرکاری آپریشن کو بزور طاقت روکنے کے لیے پرنسپل جامعہ حفصہ امِ حسان چند طالبات کے ہمراہ پہنچیں اور آپریشن روکنے کی کوشش کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 ’ساتھ ہی انہوں نے دھمکی دی کہ اگر اس آپریشن کو فوری طور پر نہ روکا گیا تو آپریشن میں شامل افراد کو کسی بھی قسم کے نقصان کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہو گی، جس کے بعد پولیس نے فوری طور پر ایکشن لیتے ہوئے ام حسان سمیت دیگر طالبات کو گرفتار کر کے تھانہ شہزاد ٹاؤن منتقل کر دیا۔‘

مقدمے کے متن کے مطابق: ’خواتین اور مردوں نے سی ڈی اے کی گاڑیاں توڑیں۔ پولیس اہلکاروں سے اینٹی رائٹ کٹس بھی چھین لیں۔ امِ حسان سمیت متعدد افراد نے سی ڈی اے عملے پر فائرنگ کی۔ دو گولیاں سرکاری گاڑیوں کو جا کر لگیں۔ امِ حسان سمیت نو خواتین کو گرفتار کیا گیا جبکہ گرفتار ہونے والوں میں آٹھ مرد بھی شامل ہیں۔ ملزمان سے ایک پستول بھی برآمد ہوا۔‘

لال مسجد کی انتظامیہ کی جانب سے گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا کہ ’مسجد کی ملحقہ عمارت کو مبینہ طور پر گرائے جانے سے متعلق پتہ چلنے کے بعد امِ حسان جامعہ حفصہ کی کچھ طالبات کے ہمراہ نہتے اس مقام پر پہنچی تھیں۔‘

عدالت میں اس کیس کی سماعت کے دوران پولیس نے بیان دیا تھا کہ ’امِ حسان سے چاقو برآمد کیا گیا ہے جبکہ ڈنڈے اور سریا سمیت دیگر تعمیراتی میٹریل اور پستول وغیرہ برآمد کرنا ہے، لہذا ان کا ریمانڈ درکار ہے۔‘

جج نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ چونکہ انہیں ’جائے وقوعہ سے گرفتار کیا گیا تو جو برآمدگی بھی آپ نے ان سے کرنی تھی، موقعے پر ہی کر لی۔‘

جس پر تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ ’کچھ نامعلوم افراد بھی ان کے ساتھ تھے، جو چند چیزیں لے کر بھاگ گئے۔‘

جج نے کہا کہ ’اگر کچھ نامعلوم افراد چیزیں لے کر بھاگے ہیں تو ان کے پیچھے جائیں اور ان سے برآمدگی کریں۔‘ تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ ’جو افراد فرار ہوئے ہیں، ان کی شناخت ہم نے ان سے تفتیش میں کرنی ہے۔‘

عدالت کی جانب سے جسمانی ریمانڈ دیے جانے کے بعد آج انسداد دہشت گردی کی عدالت نے امِ حسان اور ان کے ہمراہ گرفتار کیے گئے افراد کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

لال مسجد انتظامیہ کا کیا کہنا ہے؟

لال مسجد شہدا فاؤنڈیشن کے ترجمان حافظ احتشام نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’امِ حسان کی گرفتاری مارگلہ ٹاون کے علاقے سے ہوئی۔ اسلام آباد انتظامیہ سے ان کی اور دیگر افراد کی رہائی کے لیے مذاکرات کا آغاز ہوا تو انتظامیہ نے مطالبہ کیا کہ سیکٹر جی سکس میں واقع لال مسجد کے ساتھ کی گئی تعمیرات کو گرایا جائے، جس کے بعد معاہدے کے تحت ہم نے اس عمارت کا ایک حصہ گذشتہ روز رات گئے گرا دیا۔‘

ڈپٹی کمشنر اسلام آباد عرفان نواز میمن نے بھی انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں تصدیق کی کہ لال مسجد کے ساتھ تعمیر کردہ اضافی غیر قانونی کمروں کو مولانا عبدالعزیز نے گرا دیا ہے۔

واضح رہے کہ دسمبر 2023 میں کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ ’اتھارٹی کے نوٹس میں آیا ہے کہ متعلقہ جگہ پر اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری بلڈنگ کنٹرول ریگولیشنز 2020 کی خلاف ورزیاں کی گئی ہیں اور بلڈنگ پلانز کی منظوری کے بغیر غیر قانونی تعمیرات کی گئی ہیں۔‘

سی ڈی اے حکام نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا تھا کہ ’خلاف ورزی کرتے ہوئے جس عمارت کی تعمیر کی گئی، اسے 15 روز میں نہ روکا گیا تو سی ڈی اے قوانین کے مطابق سات روز کا شوکاز نوٹس جاری کیا جائے گا۔ اس کے بعد بھی حکم پر عملدرآمد نہ کیا گیا تو متعلقہ جگہ کو منہدم یا سیل کر دیا جائے گا۔‘

اس ضمن میں لال مسجد انتظامیہ کے نمائندے مولانا عبدالعزیز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ ’2007 میں چیف جسٹس نے آپریشن کے بعد یہ فیصلہ سنایا تھا کہ جامعہ حفصہ تعمیر کر کے دینے، بجلی و گیس کے بل ادا کرنے اور تنخواہیں ادا کرنے کا کہا گیا تھا، تاہم 16 سال گزرنے کے باوجود حکومت نے ان احکامات پر عمل نہیں کیا۔ ہم نے مجبور ہو کر یہیں پر جامعہ کی تعمیر شروع کی۔‘

یاد رہے کہ متعلقہ زمین پر جامعہ حفصہ اور چلڈرن لائبریری واقع تھی، جنہیں 2007 میں فوجی آپریشن کے بعد منہدم کر دیا گیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان