ایک طرف جہاں لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس امین الدین خان نے آج سپریم کورٹ کے جج کے طور پر عہدے کا حلف اُٹھا لیا، وہیں دوسری جانب جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس پر آئینی درخواستوں کی سماعت کرنے والے بینچ کو دوسری بار تحلیل کرکے فیصلہ واپس لے لیا گیا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا کہ جسٹس میاں مظہر عالم کی عدم دستیابی پر بینچ تحلیل کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے عدالتی ذرائع کا کہنا تھا کہ نئے جج جسٹس امین الدین کو قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس پر دائر آئینی درخواستیں سننے والے نئے بینچ میں شامل کیے جانے کا امکان ہے۔
تاہم کچھ ہی گھنٹوں بعد قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس پر دائر آئینی درخواستیں سننے والے بینچ کی تحلیل کا فیصلہ واپس لے لیا گیا۔ اب وہی بینچ 28 اکتوبر سے درخواستوں پر سماعت کرے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سپریم جوڈیشل کونسل نے 20 ستمبر کو جسٹس امین الدین کا نام بطور جج سپریم کورٹ شامل کرنے پر غور کیا اور سات اکتوبر کو پارلیمانی کمیٹی نے ان کا نام منظور کرلیا۔
جسٹس امین الدین کی وجہ شہرت اُن کی سول لا میں مہارت ہے۔
تاہم لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کو جسٹس امین الدین کے سپریم کورٹ جج بننے پر تخفظات ہیں اور اُن کا موقف ہے کہ جسٹس امین الدین خان لاہور ہائی کورٹ میں سنیارٹی میں پانچویں نمبر پر ہیں اس لیے فہرست میں اُن سے پہلے آنے والے ناموں پر غور کرنا چاہیے تھا۔
لیکن دوسری جانب کچھ وکلا کا یہ بھی ماننا ہے کہ سنیارٹی سے زیادہ کسی خاص شعبے میں مہارت ہونا اہم ہے اور چونکہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس شیخ عظمت سعید کی ریٹائرمنٹ کے بعد عدالت عظمیٰ کے پاس سول لا میں مہارت رکھنے والا جج کوئی نہیں تھا، اس لیے جسٹس امین الدین بہترین انتخاب اور سپریم کورٹ کی ضرورت ہیں۔
سول لا کی تعریف میں وہ تمام کیسز آتے ہیں جو دو پرائیویٹ فریقین کے ذاتی تنازع سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ زمین کا جھگڑا، خاندانی لڑائی، دھوکہ دہی اور شہریوں کے حقوق بھی اس میں شامل ہیں اور سول لا میں ان تمام مسائل کا قانونی حل نکالا جاتا ہے۔
جسٹس امین الدین کے حلف لیے جانے سے متعلق نوٹیفکیشن (تصویر: سپریم کورٹ)
لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج مدثر خالد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’سپریم کورٹ میں تعینات ہونے والے نئے جج جسٹس امین الدین کسی بھی حوالے سے غیر متنازع شخصیت ہیں اور اپنے پیشے کے ساتھ بہت پروفیشنل ہیں۔‘
جسٹس امین الدین 30 نومبر 2025 تک سپریم کورٹ کے جج کے طور پر فرائض انجام دیں گے لیکن چیف جسٹس آف پاکستان بننے کی فہرست میں شامل ہونے سے پہلے ہی ریٹائر ہو جائیں گے۔
رواں برس پنجاب سے ہی جسٹس قاضی امین کو سپریم کورٹ کا جج تعینات کیا گیا تھا۔ وہ کریمنل لا میں مہارت رکھتے ہیں۔ اگست میں جسٹس عظمت سعید شیخ کی ریٹائرمنٹ کے بعد سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد کم ہو گئی تھی، لیکن جسٹس امین الدین کی تعیناتی کے بعد سپریم کورٹ کے ججز کا کورم پورا ہو گیا ہے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ میں اس وقت آٹھ جج پنجاب سے ہیں، چھ جج سندھ ہائی کورٹ سے تعینات کیے گئے ہیں، دو جج پشاور ہائی کورٹ سے ہیں جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بلوچستان ہائی کورٹ سے آنے والے واحد جج ہیں۔ 2014 سے اب تک بلوچستان سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بعد کسی کو سپریم کورٹ میں تعینات نہیں کیا گیا۔