امریکی سائنس دان زکام کا ایک ایسا علاج تیار کرنے میں مصروف ہیں جو اس وائرس کے موجودہ علاج یعنی ویکسینیشن سے زیادہ موثر ہو سکتا ہے۔
جارجیا سٹیٹ یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ فار بائیو میڈیکل سائنسز کی تحقیقاتی ٹیم کے مطابق انفلوئنزا وائرس کے جینیاتی تغیر کا جانوروں پر کامیاب تجربہ ’انفلوئنزا تھراپی میں ایک تاریخی پیش رفت‘ ہو سکتی ہے۔
یہ دوا جو کہ نگلی جا سکتی ہے، آر این اے پولی میریز کو روک کر انفلوئنزا کے لونی مادہ کو بدلنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے جو اس وائرس کی جینیات میں تغیر کا باعث بنتا ہے۔ اگر یہ تغیر کافی مقدار میں ہو پائے تو وائرس کے جینز غیر فعال ہو جاتے ہیں اور وائرس دوبارہ جگہ نہیں بنا پاتا۔
تحقیق کے مصنف اور بائیو میڈیکل سائنسز کے پروفیسر ڈاکٹر رچرڈ پلیمپر کا کہنا ہے کہ ’انفلوئنزا کے خلاف یہ مرکب بہت اثر انگیز ہے۔‘
انہوں نے بتایا: ’یہ دوا نگلے جانے کے قابل ہے اور انفلوئنزا وائرس کے خلاف اس کا کارآمد ہونا ثابت شدہ ہے اور یہ اس وائرس کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ قائم کرتی ہے۔‘
انفلوئنزا سانس کی وبائی بیماری کے باعث پھیلتا ہے اور اس کی علامات بخار، کھانسی، سر، پٹھوں اور جوڑوں میں درد ہے۔ اس کے علاوہ اس سے متاثرہ انسان بے چینی کا شکار بھی ہو سکتا یا اس کا گلا اور معدہ بھی خراب ہو سکتا ہے۔
وہ مریض جو بڑی عمر سے تعلق رکھتے ہیں یا جن میں قوت مدافعت کی کمی ہوتی ہے، انہیں لگاتار ہسپتال جانے کی ضرورت رہتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہر سال صرف امریکہ میں موسمی انفلوئنزا، 30 سے 80 ہزار کے درمیان اموات کی وجہ بنتا ہے۔ برطانیہ میں یہ تعداد دس ہزار کے لگ بھگ ہے جس میں سب سے زیادہ بڑی عمر کے افراد متاثر ہوتے ہیں۔ 09-2008 میں برطانیہ میں اس وائرس کا نشانہ بننے والوں کی تعداد 13 ہزار تھی۔ زکام سالانہ بنیادوں پر دنیا بھر میں تقریباً پانچ لاکھ اموات کی وجہ بنتا ہے۔
تحقیق کے دوران اس اینٹی وائرل مرکب کا تجربہ نیولوں کی ایک قسم پر کیا گیا، جس کی ساخت انسانی انفلوئنزا ماڈل کے بہت قریب ہے۔ اسی دوران اس اینٹی وائرل کو کئی موسمی اور وبائی وائرس کی کئی مختلف قسموں کے خلاف استعمال کیا گیا، جن میں سوائن انفلوئنزا وائرس بھی شامل تھا۔ 2009 میں اس وائرس نے وبائی شکل اختیار کر لی تھی۔
تحقیق کے دوران یہ سامنے آیا کہ یہ اینٹی وائرس ان تمام وائرس کی اقسام کے دوباہ جگہ بنانے کی راہ میں رکاوٹ بنا ہے۔
اس تجربے میں استعمال ہونے والے نیولوں میں وائرس کی مقدار علاج کے فوری بعد بہت کم ہو گئی اور بخار کا دورانیہ بھی کافی کم ہو گیا جبکہ وہ نیولے جن پر اس مرکب کا تجربہ نہیں کیا گیا تھا ان میں بخار کا دورانیہ طویل اور وائرس کی مقدار زیادہ تھی۔
اس تحقیق کے پہلے مصنف اور انسٹی ٹیوٹ آف بائیو میڈیکل سائنسز کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر مارٹ توتس کہتے ہیں کہ ’ہمارے خیال میں انفلوئنزا اینٹی وائرس کی اگلی نسل صرف موثر اور محفوظ ہی نہیں بلکہ مزاحمت پر بھی مبنی ہوگی۔‘
ڈاکٹر پلیمپر کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم نے ابھی تک انفلوئنزا کی مزاحمت کے لیے کسی مادہ کی شناخت نہیں کی لیکن ہمیں یقین ہے کہ وائرس کے خلاف جینیاتی رکاوٹ کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ ہم پُر امید ہیں کہ اس اینٹی وائرس کی اگلی نسل میں انفلوئنزا سے لڑنے والی تمام اینٹی وائرل خوبیاں موجود ہوں گی۔‘
© The Independent