پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے عین وقت پر ملائشیا میں ہونے والی کوالا لمپور سربراہی کانفرنس میں شرکت منسوخ کر دی جب کہ گذشتہ ہفتے ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر فیصل اس دورے کی تصدیق کر چکے تھے۔ اس حوالے سے دفتر خارجہ حکام نے بھی اب تصدیق کر دی ہے کہ پاکستانی قیادت کوالا لمپور کانفرنس میں شریک نہیں ہو رہی۔
سرکاری بیانات میں پہلے یہ کہا گیا کہ وزیراعظم شرکت نہیں کریں گے بلکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پاکستان کی نمائندگی کریں گے لیکن کانفرنس سے ایک روز قبل بحرین واپسی پر طے پایا کہ اب وزیر خارجہ بھی ملائیشیا نہیں جائیں گے۔
جنیوا میں گلوبل ریفیوجی فورم کے حاشیے پر وزیراعظم عمران خان کی ترک صدر طیب اردگان سے ملاقات ہوئی جس میں وزیراعظم نے انہیں موجودہ صورت حال اور پاکستان کے کو الالمپور کانفرنس میں شرکت نہ کرنے سے بھی آگاہ کیا۔
دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے ڈاکٹر مہاتیر محمد کو بھی اس حوالے سے آگاہ کر دیا ہے۔ ملائیشیا کے سرکاری طور پر جاری ہونے والے بیان کے مطابق 18 سے 21 دسمبر کو ہونے والے کوالالمپور سربراہی کانفرنس میں پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے شرکت سے معذرت کی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے کانفرنس سے خطاب بھی کرنا تھا۔ جاری شدہ بیان کے مطابق ڈاکٹر مہاتیر محمد نے اس بات کی تصحیح کی کہ کوالالمپور سمٹ او آئی سی کے مقابلے میں نہیں بنایا گیا بلکہ اس کی اپنی انفرادی حیثیت ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ’اس کانفرنس کا انعقاد کرانے سے خطے میں نیا بلاک بنایا جانا ہرگز مقصود نہیں ہے۔‘
کوالا لمپور کانفرنس کے انعقاد کا مقصد کیا تھا؟
اعلیٰ سفارتی حکام کے مطابق ملائشیا میں منعقد ہونے والے سربراہی اجلاس میں ترکی ایران قطر سمیت پاکستان کو بلایا گیا تھا تاکہ کشمیر اور فلسطین سمیت اسلامی ممالک کے مسائل پر توجہ مرکوز کی جا سکے اور او آئی سی کی طرز کا فورم بنایا جائے۔ اس فورم کو بنانے کا منصوبہ ستمبر میں نیویارک اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کی سائیڈ لائن میں پاکستان ترکی اور ملائشیا نے تیار کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
واضح رہے کہ ملائیشیا اور ترکی نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے معاملے پر علی الاعلان پاکستان کی حمایت کی تھی اور پانچ اگست کو بھارت کی جانب سے کشمیر کی خود مختار حیثیت ختم کرنے مذمت کی تھی۔ لیکن اس معاملے پر او آئی سی یا خلیجی ممالک کا جانب کُھل کر بھارتی اقدام کی مذمت نہیں کی گئی بلکہ الٹا او آئی سی کے اجلاس میں بھارت کو مدعو کیا گیا۔ جس پر پاکستان نے اپنے تخفظات کا اظہار کیا تھا اور بطور احتجاج کانفرنس میں شرکت نہیں کی تھی۔
پاکستان ملائیشیا کیوں نہیں جا رہا؟
کوالالمپور کانفرس میں سعودی عرب سمیت بحرین اور یو اے ای کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔ جس پر سعودی عرب کو پاکستان کی شرکت پر تخفظات تھے اورخلیجی ممالک کو او آئی سی کے مقابلے کا دوسرا فورم بھی منظور نہیں۔ سفارتی ماہرین کے مطابق خطے کا نیا اتحاد ترکی ایران ملائشیا اور پاکستان یقنی طور پر دیگر عرب ممالک کے لیے قابل قبول نہیں تھا اور پاکستان سعودی عرب کو ناراض کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے۔
سفارتی ذرائع کے مطابق ملائشیا کانفرنس پر سعودی تخفظات دور کرنے کے لیے وزیراعظم نے پہلے سعودی عرب اور پھر قطر کا دورہ کیا۔ دورے سے واپسی پر پاکستان کی جانب سے کوالالمپور کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا بتایا گیا۔ اور ملائیشیا کو اس حوالے سے اطلاع بھی دے دی گئی ہے۔ ’
پاکستان کی خارجہ پالیسی کتنی آزاد ہے؟
اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے مختلف سفارتی تجزیہ کاروں سے رابطہ کیا تو مختلف آرا سامنے آئیں۔
دفاعی و سفارتی تجزیہ کار قمر چیمہ نے کہا کہ ’کوالا لمپور کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کی وجہ سے پاکستان کشمیر کا کیس کمزور کر رہا ہے کیوں کہ ملائیشیا اور ترکی نے ہی کشمیر کے حق میں آواز میں اٹھائی تھی۔ پاکستان اگر ملائیشیا قطر اور ترک اتحاد کا حصہ نہیں بنے گا تو اُنہیں تو فرق نہیں پڑے گا لیکن پاکستان کے لیے خارجہ پالیسی کے آپشن کم ہو جائیں گے۔‘
صحافی شوکت پراچہ نے کہا کہ ’پاکستان کبھی کسی اتحاد کا حصہ نہیں رہا بلکہ پاکستان کے ہر ملک کے ساتھ اس کے آزادانہ تعلقات ہیں۔ اس لیے اب بھی کسی ملک کے ساتھ تعلقات پر اثر نہیں پڑے گا کیوں کہ پاکستان کی حیثیت ان تمام ممالک کے درمیان ایک پُل جیسی ہے جس کی کوشش ہے کہ ایران سعودی تنازع کم کرایا جائے، ترکی سعووی تعلقات بہتر کیے جائیں اور ملائشیا کے سعودی عرب ممالک کے ساتھ فاصلے کم کیے جائیں۔
کیا اس بین الاقوامی یو ٹرن پر پاکستان کی سبکی ہو گی؟
صحافی شوکت پراچہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ مسلم اُمہ کے اتحاد کو قائم رکھا جائے۔ شوکت پراچہ نے بتایا کہ بظاہر پاکستان نے یوٹرن لیا ہے لیکن کم از کم چار مرتبہ وزیراعظم عمران خان نے ملائشیا کے وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور انہیں یو اے ای اور سعودی عرب کے تخفظات سے آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر مہاتیر محمد سعودی عرب کے تخفظات دور کرنے کے لیے چھ دسمبر کو سعودی عرب جانے کے لیے تیار بھی ہو گئے تھے لیکن سعودی عرب میں ہونے والی کانفرنس کی وجہ سے اُن کا دورہ نہیں ہو سکا۔ پاکستان دونوں ممالک کے درمیان پہلے خلیج ختم کرے گا پھر پاکستان کوالالمپور کانفرنس کا حصہ بنے گا۔‘
دوسری جانب سفارتی تجزیہ کار قمر چیمہ نے کہا کہ بین الاقوامی یو ٹرن سے پاکستان کی سُبکی تو ہے لیکن بین الاقوامی سطح پر وزیراعظم عمران خان کا کمزور وزیراعظم کا تاثر ابھرے گا اور شاید اُن کے مستقبل میں کیے گئے وعدوں پر پھر کوئی ملک اعتبار نہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی پاکستان کی شرکت نہ ہونے سے ترکی اور ملائیشیا میں لوگ ناراض ہوں گے۔
سفارتی تجزیہ کار قمر چیمہ نے کہا کہ ’پاکستان کی خارجہ پالیسی آزاد نہیں ہے کبھی مغرب اور کبھی خلیج کا اثر رہتا ہے۔‘
جب کہ سینیئر سفارتی صحافی شوکت پراچہ کا انڈپینڈنٹ اردو سے یہ کہنا تھا کہ ’زیر اثر ہونے کی بات نہیں بلکہ جب بھی پاکستان کو کسی بھی قسم کی مدد درکار ہوئی تو ہمیشہ سعودی عرب ہی آگے آیا ہے چاہے یہ معاملہ ایٹمی دھماکوں کے وقت لگنے والی پابندیاں ہوں یا حالیہ مالیاتی بحران میں تین ارب ڈالر کی مدد ہو۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان جب دیکھتا ہی سعودی عرب کی طرف ہے تو پھر سعودی عرب کے ساتھ تعلقات خراب کرنا کسی بھی طرح پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ بلکہ موجودہ حکومت میں امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بحالی، صدر ٹرمپ سے پاکستانی وزیراعظم کی ملاقات میں بھی سعودی ولی عہد کا اہم کردار ہے۔‘