وائٹ ہاؤس نے قومی سلامتی کے سابق مشیر جان بولٹن کو واضح کر دیا ہے کہ رازداری کے قوانین کی ’خلاف ورزی‘ کی وجہ سے ان کی نئی کتاب، جس میں انھوں نے مبینہ طور پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مہلک شواہد لکھے ہیں، موجودہ شکل میں شائع نہیں کی جاسکتی۔
یہ وارننگ 23 جنوری کو بولٹن کے وکیل چارلس کوپر کو لکھے گئے خط میں دی گئی تھی جو بدھ کو اس وقت منظر عام پر آیا جب امریکی سینیٹ میں ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی میں شدت آچکی ہے۔
قومی سلامتی کونسل نے کتاب کے ابتدائی جائزے کے بعد کہا تھا کہ بولٹن کی کتاب پر وائٹ ہاؤس کے ملازمین کی لکھی کتابوں کی جانچ پڑتال کا قانون نافذ ہوتا ہے۔
قومی سلامتی کونسل نے بولٹن کے وکیل کوپر کو لکھے گئے ایک خط میں کہا: ’اس (مسودے) میں درج کچھ معلومات انتہائی خفیہ اور حساس ہیں، جنھیں حذف کیے بغیر اس کتاب کو شائع نہیں کیا جاسکتا۔‘
کوپر نے اگلے دن بھیجے گئے اپنے جوابی خط میں وائٹ ہاؤس کے اس دعوے کو مسترد کردیا۔ اس خط کو انھوں نے بدھ کو عام کیا ہے، جس کے مطابق وہ نہیں سمجھتے کہ اس میں کوئی بھی معلومات حساس ہیں۔‘
ان رپورٹس کے بعد کہ وائٹ ہاؤس میں دوران ملازمت گزرے وقت کی یادداشتوں پر مبنی کتاب ’وہ کمرہ جہاں یہ ہوا‘ صدر ٹرمپ کے خلاف طاقت کے ناجائز استعمال کے الزام کی تصدیق کرتی ہے، ڈیموکریٹس چاہتے ہیں کہ سینیٹ میں بولٹن کو گواہی کے لیے بلایا جائے۔
تاہم ٹرمپ اور وائٹ ہاؤس کے وکلا نے بدھ کو یہ کہہ کر ڈیموکریٹس کی اس کوشش کو ناکام بنانے کی کوشش کی کہ بولٹن حکومتی رازوں کو افشا کرسکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سینیٹ میں ری پبلکنز کی 53 جبکہ ڈیموکریٹس کی 47 نشستیں ہیں اور بولٹن کو بطور گواہ پیش کرنے کے لیے ڈیموکریٹس کو چار ری پبلکنز کی حمایت درکار ہے۔
سینیٹ میں ڈیموکریٹک اقلیتی رہنما چک شمر نے کہا کہ 71 سالہ بولٹن کو بطور گواہ بلانے کے لیے ری پبلکنز کی حمایت حاصل کرنا ایک مشکل کام ہو سکتا ہے۔
بولٹن کو گذشتہ برس ستمبر میں ٹرمپ نے ان رپورٹس کے بعد برطرف کردیا تھا کہ ان کی آنے والی کتاب میں الزامات عائد کیے گئے ہیں کہ صدر ٹرمپ نے اپنے انتخابی حریف جو بائیڈن پر سیاسی گند اچھالنے کے لیے یوکرین کی فوجی امداد روک دی تھی۔
بولٹن نے مبینہ طور پر اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ صدر نے انھیں اگست میں ذاتی طور پر بتایا کہ یوکرین کی فوجی امداد کا انحصار اس بات پر ہے کہ کیف بائیڈن کے خلاف تحقیقات کرتا ہے کہ نہیں۔
بولٹن کے مواخذے کی کارروائی میں پیش ہونے کے امکانات کے پیش نظر کوپر نے اپنے خط میں قومی سلامتی کونسل سے کہا ہے کہ وہ کتاب کے متن کے جائزے کو تیزی سے پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔
تاہم بدھ تک انھیں اپنے خط کا کوئی جواب نہیں ملا۔
قومی سلامتی کونسل کا خط منظر عام پر آنے سے کئی گھنٹے قبل ٹرمپ نے ٹوئٹر پر طنزیہ انداز میں بولٹن کے حوالے سے لکھا تھا کہ انھوں نے ’حساس قومی سلامتی کے معاملات پر گندی اور جھوٹی کتاب لکھی ہے۔‘
بولٹن کی کتاب کے باقاعدہ جائزہ لینے کے عمل کے باوجود اس کا متن پہلے ہی امریکہ میں گردش کر رہا ہے، جس کی وجہ سے یوکرین کے ساتھ ٹرمپ کے تعلقات کو بیان کرنے والے حوالوں سے ایک سنسنی پھیل گئی تھی۔
گذشتہ ہفتے ڈیووس میں ایک نیوز کانفرنس میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ بولٹن سے پریشان ہیں، جنھیں انہوں نے 2019 میں برطرف کیا تھا۔
ٹرمپ نے مزید کہا تھا کہ تجربہ کار خارجہ پالیسی کے مشیر ’میرے کچھ خیالات کو جانتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ میں رہنماؤں کے بارے میں کیا سوچتا ہوں۔ اگر وہ انکشاف کرتے ہیں کہ میں کسی خاص رہنما کے بارے میں کیا سوچتا ہوں تو یہ کچھ زیادہ مثبت نہیں۔‘