مغرب کا جو تصور جمہوریت ہے اس میں سیاسی پارٹیاں اس لیے ضروری سمجھی جاتی ہیں تاکہ وہ تمام لوگ جو ایک نظریہ پر اتفاق کرتے ہوں وہ ایک جگہ جمع ہو جائیں تاکہ عوام کا مینڈیٹ لیا جا سکے۔
اس نظام میں یہ سمجھا جاتا ہے کے تمام لوگ ایک نظریے پر متفق نہیں ہوں گے لیکن چھوٹے چھوٹے گروہوں میں بٹنے کی بجائے چند بڑی پارٹیاں ہوں گی تاکہ ان میں قانون سازی اور حکومتی اصلاحات کے بارے میں تصفیہ ہو سکے۔ اس لیے کہ جتنی زیادہ پارٹیاں ہوں اتنا ان میں سمجھوتا ہونا مشکل ہوتا ہے۔
مغربی جمہوریت میں سیاسی پارٹیوں کے اصل مالک اس کے ممبران ہوتے ہیں اور کسی ایک خاندان کی جاگیرداری یا قبضہ جمہوری روایات کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔
جس جمہوری نظام کو ہم نے اپنے ملک میں نافذ کیا ہے وہ نہ جمہوری ہے اور نہ اس میں عوام کےمینڈیٹ کو کوئی اہمیت حاصل ہے، چاہے وہ سیاسی پارٹیوں کے اندر ہو یا پارلیمان میں۔ کسی پارٹی میں لوگ اس بنیاد پر شامل نہیں ہوتے کے اس کا نظریہ کیا ہے بلکہ یہ چند خاندانوں کے گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے۔ پی پی پی، مسلم لیگ ن، پی ٹی آئی، اے این پی اور جے یو آئی ف کو سیاسی پارٹیاں کہنا بھی جمہوریت کی توہین ہے۔
تین بڑی پارٹیوں کی فنڈنگ بھی اس ملک کر امیر ترین لوگ کرتے ہیں جس کے بدلے انہیں ایسی مراعات دی جاتی ہیں کے وہ امیر سے امیر ترین ہوں جبکہ عوام اور یہ ملک غریب سے غریب تر۔ کسی بھی پارٹی پر قبضہ کرنے کے لیے جس قدر سرمائے کی ضرورت ہے وہ صرف چند مہینوں میں منافع کے ساتھ واپس آ جاتا ہے۔
اندازہ لگائیں کے پچھلے دنوں ایک امیر آدمی نے 430 ارب روپے کا ہرجانہ دینے پر سپریم کورٹ سے معاہدہ کیا۔ اس رقم کے ایک چھوٹے حصہ سے پارٹی سربراہوں کو چندہ دے کر پوری پارلیمان خریدی جا سکتی ہے۔ امیر ترین لوگ کسی ایک پارٹی پر پیسہ نہیں لگاتے بلکہ تینوں بڑی پارٹیوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔
نظریاتی پارٹیاں یا تو مذہبی ہیں یا لسانی جیسا کے جماعت اسلامی یا ایم کیو ایم۔ جماعت اسلامی میں کسی حد تک جمہوریت ہے اور پارٹی عہدیداران الیکشن کے ذریعہ منتخب ہوتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیدوار بھی زیادہ تر متوسط طبقہ کے لوگ ہوتے ہیں جن میں اکثر پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے۔ جماعت کے اندر چندہ جمع کرنے کا بھی نظام ہے جس سے پارٹی کے اخراجات پورے کئے جاتے ہیں۔ لیکن اس جماعت کا اصل مسئلہ اس کا نظریہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میں نے مولانا مودودی اور سید قطب دونوں سیاسی مفکروں کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کے وہ صحیح طور پر اسلامی سیاسی فلسفہ کو نہ سمجھ پائے۔ وہ ہمیں پیچھے لے جانا چاہتے ہیں اور قرآنی آیات کی انتہائی محدود تشریح کرتے ہیں جبکہ قرآن نے متعدد بار اس پر زور دیا ہے کہ انسان ابھی تک تجریدی ترقی کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ اگر مجھے جماعت کے نظریہ سے اختلاف نہ ہوتا تو یہ پارٹی میری پہلا انتخاب ہوتی۔
موجودہ نظام اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کے چند خاندانوں کا پارٹیوں پر قبضہ رہے اور وہ ان لوگوں کو پارٹی کے ٹکٹ دیں جو حکمران اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کرے۔ یہ لوگ نظام کو اپنا طابع رکھنا چاہتے ہیں نہ کہ نظام کے طابع رہیں۔ یہ غیرجمہوری نظام اب آگے نہیں چل سکتا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک نئی عوامی جمہوریہ تعمیر کی جائے جس میں سیاسی پارٹیاں کسی کی جاگیر نہ ہوں اور اس کی جڑیں عوام میں ہوں۔
اس کے لیے جتنی جلد مذاکرات شروع کئے جائیں اتنا اس ملک کے مفاد میں ہے۔ پی پی پی، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن میں میں ان لوگوں سے رابطہ میں ہوں جو جمہوری سوچ رکھتے ہیں۔ ہم سب کو ایک جگہ جمع ہونا ہوگا تاکہ ملک کو مکمل تباہی سے بچا سکیں۔