پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کو جتنا ٹیلنٹ کراچی اور لاہور سے ملتا ہے اتنا پورا ملک سے ملا کر بھی جمع نہیں ہو پاتا۔ روز اول سے بیٹنگ میں کراچی اور بولنگ میں لاہور نمایاں رہا۔
حنیف محمد سے لے کر ظہیر عباس اور جاوید میاں داد تک، ہر بڑے بلے باز کی نرسری ساحلی شہر کراچی رہا ہے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بیٹنگ میں حکمرانی کراچی کے ہاتھ سے نکلتی جا رہی ہے۔
کراچی کنگز ٹیم تو کراچی کی ہے لیکن اس میں کراچی کا کوئی بلے باز شامل نہیں اور بولنگ میں بھی کوئی بڑا نام نظر نہیں آتا۔
ٹیم کے مالک سلمان اقبال پر ماضی میں اس حوالے سے تنقید ہوتی رہی ہے لیکن وہ ہمیشہ اس بات کی نفی کرتے ہیں کہ یہ صرف کراچی کی ٹیم ہے۔
وہ کنگز کو پورے پاکستان کی ٹیم قرار دیتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ شہر کے کھلاڑیوں کی نمائندگی نہ ہونے کے باعث انھیں کراچی کی مکمل حمایت کبھی بھی نہیں مل سکی۔ کراچی میں آج بھی پشاور زلمی کا راج ہے۔
کراچی کنگز کی امید
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ویسے تو کنگز میں کئی ٹی ٹوئنٹی سپیشلسٹ ہیں لیکن اس وقت دنیائے کرکٹ کے دمکتے ستارے بابر اعظم ہی ٹیم کی واحد امید ہیں۔
بیٹنگ میں ان کی موجودہ فارم اور رنز کی بھوک نے انھیں سب سے جدا رکھا ہوا ہے۔ ان کی بیٹنگ حملے اور دفاع کا حسین امتزاج ہے۔ وہ اچانک گیئر تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ہر گیند پر رن لینے کے فن سے وہ ابتدا سے حریف کے لیے خطرناک بن جاتے ہیں۔
بیٹنگ کا بوجھ
ایلکس ہیلز، شرجیل خان اور افتخار احمد کنگز کے تین اہم بلے باز ہوں گے۔ پابندی ہٹنے کے بعد پہلی دفعہ ایکشن میں دکھائی دینے والے شرجیل اپنے شاٹ سلیکشن کی وجہ سے انتہائی خطرناک ہیں۔ اگر ان کا بیٹ چل رہا ہو اور قسمت کی دیوی مہربان ہو تو پھر یہ پاکستانی کرس گیل بن جاتے ہیں۔
تیز بیٹنگ کے لیے مشہور ایلکس ہیل کا بلا پچھلے کئی مہینوں سے خاموش ہے۔ افتخار بھی اچھی فارم میں ہیں وہ اور عماد وسیم آخری اوورز میں کچھ بھی کرسکتے ہیں۔
بولرز کا راج
محمد عامر اور کرس جارڈن کی جوڑی کسی بھی اوپننگ پیئر کو پریشان کرنے کے لیے کافی ہے۔ عامر ویسے بھی صرف ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کھیل رہے ہیں تو اپنی پوری طاقت سے بولنگ کریں گے۔
عامر یامین اور مکلیناگھن مڈل میں رنز روکنے کے لیے بولنگ کریں گے جبکہ عماد وسیم کی بولنگ فیصلہ کن ہوگی لیکن اصل ہتھیار لیفٹ آرم سپنر عمر خان ہوں گے جو ایمرجنگ پلیئر بھی ہیں۔ گذشتہ ایڈیشن میں متعدد بار وہ خطرناک بولنگ کرکے حریف ٹیم کے لیے مشکلات پیدا کرچکے ہیں۔
کپتانی کا تاج
کنگز نے گذشتہ سال کے کپتان عماد وسیم کو برقرار رکھا ہے۔ گذشتہ پی ایس ایل میں کراچی کنگز چوتھی پوزیشن پر رہی تھی حالانکہ اسے کئی بڑے کھلاڑیوں کی خدمات حاصل تھیں لیکن ٹورنامنٹ میں اچھے آغاز کے باوجود ٹیم آخر میں مسلسل ہارتی رہی۔ اس سال ٹیم کو بہت زیادہ امیدیں وابستہ ہیں۔
ٹیم کے دوسرے کھلاڑیوں میں وکٹ کیپر رضوان، سپنر بلال آصف، اسامہ میر علی خان اور ارشد اقبال شامل ہیں۔ ان میں فقط رضوان ہی ایسے ہیں جو تسلسل کے ساتھ کھیلیں گے، باقیوں کے ساتھ قسمت کھیلے گی۔
ٹیم کی کوچنگ آسٹریلین ڈین جونز کے ہاتھوں میں ہے جن کی ایک سرخ ڈائری مشہور ہے جو وہ ہر وقت اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔
اس ڈائری میں ہر کھلاڑی کا کٹھا چٹھا اور مستقبل کی منصوبہ بندی لکھی ہوتی ہے۔ وہ اس سے قبل اسلام آباد یونائیٹڈ کے ساتھ رہ چکے ہیں۔
سوئنگ کے سلطان وسیم اکرم بولنگ استاد ہوں گے۔ یہ وسیم اکرم کی پی ایس ایل میں تیسری ٹیم ہے۔ اس سے قبل وہ اسلام آباد اور ملتان کے بولروں کو ٹپ دیتے نظر آئے تھے۔
ان سب کے ہوتے ہوئے کراچی اس سال مضبوط ٹیم نظر آتی ہے لیکن ہر جنگجو کی صلاحیتں صرف میدان میں کھلتی ہیں، اس لیے بڑے ناموں کی بڑی کارکردگی ہی کراچی کو وکٹری سٹینڈ پر پہنچا سکتی ہے۔
کراچی کی ٹیم گذشتہ سال غیر اخلاقی زبان اور اشاروں کی مرتکب پائی گئی تھی۔ لاہور قلندرز کے خلاف ایک میچ میں وسیم اکرم اور عماد وسیم پر لاہور قلندرز نے الزام لگایا تھا کہ انھوں نے میچ جیتنے کے بعد خواتین کی جانب اشارہ کرکے معنی خیز جملے کسے۔
اگر بابر اعظم اور بولرز اپنی سو فیصد کارکردگی دکھائیں تو اس مرتبہ کراچی کنگز کے ٹائٹل جیتنے کے امکانات 70 فیصد سے زائد لگتے ہیں۔
بہرحال کوئی کچھ کرے یا نہ کرے کراچی کنگز کا سارا درومدار بابر اعظم پر رہے گا۔