کہتے ہیں کہ اگر کسی کو نتائج کی پرواہ نہ ہو اور وہ سب سے الگ تھلگ اپنے کام میں منہمک ہو تو سمجھ لو وہی قلندر ہے۔ وہ قلندر جس پر نہ موسم کی سختیاں اثر انداز ہوتی ہیں اور نہ دل شکنی کے تیر وتبر۔
لاہور قلندرز بھی صحیح معنوں میں شان قلندرانہ رکھتے ہیں۔ جب پی ایس ایل کا آغاز ہوا اور ابتدائی قوانین متعارف کرائے گئے تو ان میں سب سے اہم شق نوجوان ٹیلنٹ کی دریافت اور ان کی نوک پلک درست کرنا تھی۔
اس منافع بخش لیگ کو ایک سوشل معاہدے کا روپ دینے کے لیے پی سی بی کے اس وقت کے ذہین صدر نجم سیٹھی نے لیگ کے چارٹر میں نوجوان کھلاڑیوں کا ایک واضح اور مستقل نظام متعارف کرایا تھا۔
یہ نظام اگرچہ بھارتی آئی پی ایل سے متاثر تھا لیکن بھارت کے مقابلے میں پاکستان کا کرکٹ سسٹم کمزور اور غیر دلچسپ ہونے کے باعث پی ایس ایل کی یہ کوشش قابل تعریف تھی۔
اس شق پر عمل اگر کسی نے کیا ہے تو وہ لاہور قلندرز ہیں۔ پہلے چار ایڈیشنز کے مکمل یا جزوی طور پر متحدہ عرب امارات میں ہونے کے باوجود لاہور قلندرز نے پاکستان میں بھرپور کام کیا ہے۔
لاہور قلندرز نے پہلے سال سے ہی ٹیلنٹ ہنٹنگ پروگرام متعارف کراتے ہوئے پورے پنجاب میں جگہ جگہ ٹرائلز کے ذریعے نئے کھلاڑی ڈھونڈے اور ان کی فٹنس اور صلاحیت پر محنت کر کے پتھر سے سونا اور پھر سونے سے کندن بنا دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حارث رؤف، فخر زمان اور کئی ایسے چھپے ہوئے ستاروں کو چمک دمک قلندرز نے ہی عطاکی ہے۔
کوچ عاقب جاوید اور ٹیم کے مالک رانا فواد کی کوششیں قابل تعریف ہی نہیں قابل تقلید بھی ہیں۔
بھری دھوپ میں ننگے پاؤں چلنے والے قلندرز کے پیروں میں آبلے تو پڑے لیکن اب تک گلے میں پھولوں کے ہار نہیں پڑ سکے۔
ایسا نہیں کہ ٹیم کمزور ہے یا کہیں کچھ کمی ہے۔ ٹی ٹوئنٹی کے بادشاہ کیوی بلے باز برینڈن میکلم سے لے کر فخر زمان بیٹنگ میں اور بولنگ میں آسٹریلیا کی بگ بیش لیگ میں جھنڈے گاڑنے والے حارث رؤف سے لے کر یاسر شاہ تک، ایک سے ایک ہیرا رانا فواد نے چنا ہے، مگر سب مل کر بھی قلندرز کو ہر سال آخری پوزیشن سے بچانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
پہلے سال اظہر علی کی کپتانی میں کرس گیل، ڈیرن براوو اور عمر اکمل جیسے بڑے کھلاڑیوں کے ہوتے ہوئے بھی ٹیم آخری پوزیشن پر رہی۔
2016 اور 2017 میں کپتانی میکلم نے سنبھالی جبکہ سنیل نارائن، گرانٹ ایلیٹ، فخر زمان، جیسن رائے اور حارث رؤف جیسے کھلاڑی موجود تھے مگر نتیجہ نہ بدل سکا۔
اسی سال میکلم اور عمر اکمل کے درمیان اختلافات کی وجہ سے پاکستانی بلے باز کو آدھے سے زیادہ سیزن باہر بیٹھنا پڑا۔
2018 میں محمد حفیظ نے ٹیم میں شمولیت اختیار کی اور اے بی ڈیولیئر بھی آگئے۔ سہیل اختر، فخر زمان، شاہین شاہ آفریدی اور یاسر شاہ بھی موجود تھے لیکن حفیظ دو سال کپتان رہنے کے باوجود ٹیم کو شکستوں کے غار سے نہ نکال سکے۔ کئی ایسے میچ قلندرز نے کھیلے جب آخری لمحوں میں بازی پلٹ گئی۔
2019 میں ٹیم کو اُس وقت دھچکہ لگا جب پہلے حفیظ اور پھر ڈی ویلئرز زخمی ہوگئے. دونوں کپتانوں کی عدم موجودگی میں فخر زمان کو کپتانی کرنا پڑی جو آخری وقت تک فیصلہ نہ کرسکے کہ اپنا بلا دیکھیں یا مخالف بلے باز کا۔
2020 کے پانچویں ایڈیشن میں ٹیم مینجمنٹ نے جرات مندانہ فیصلہ کرتے ہوئے کپتانی کا بوجھ ایک ایسے کھلاڑی کے کاندھوں پر ڈالا ہے جو پاکستان کرکٹ کا بڑا نام تو نہیں لیکن قلندرز کے لیے تواتر کے ساتھ کارکردگی دکھاتا رہا ہے۔
سہیل اختر کا انتخاب عاقب جاوید کی کرکٹ بصیرت کا ایک نمونہ ہے جو ہمیشہ ہیروں کی قدر کرتے ہیں۔
سہیل اختر کے لیے کپتانی ایک مشکل امر ہوگا لیکن انہیں اطمینان ہے کہ کچھ ایسے دماغ ان کے ساتھ ہیں جو میدان میں ذمہ داری لیتے ہیں۔
کرکٹ کے ’پروفیسر‘ حفیظ کی خوش قسمتی ہے کہ پی ایس ایل سے قبل ان کی بولنگ پر لگی پابندی اٹھا لی گئی۔ وہ آج بھی محدود اوورز کرکٹ کے خطرناک بولر ہیں۔
بیٹنگ میں حفیظ اتنے اچھے تو نہیں لیکن ان کے بلے میں وہ ساری خصوصیات ہیں جس کی قلندرز کو ضرورت ہے۔
زیادہ بوجھ فخر زمان کے کاندھوں پر ہوگا اور ان کے ساتھ ممکنہ طور پر سہیل اختر اننگز کا آغاز کریں گے۔ سہیل اختر پچھلے سالوں میں کئی تیز اننگز کھیل چکے ہیں۔
مڈل آرڈر میں محمد حفیظ، کرس لائن اور شاید سلمان بٹ ہوں گے جبکہ ہارڈ ہٹنگ کے لیے سمت پٹیل پر بھروسہ کیا جائے گا۔
بیٹنگ میں سارا بوجھ ٹاپ آرڈر پر ہوگا اس لیے ہو سکتا ہے کہ ٹیم محتاط انداز میں شروع کرے اور ڈیتھ اوورز میں تابڑ توڑ حملے کرے۔
بولنگ میں قلندرز کافی مضبوط نظر آتی ہے۔ شاہین شاہ اور حارث رؤف کی حالیہ کارکردگی نے عاقب جاوید کو کافی مطمئن کررکھا ہے۔
خاص طور سے حارث نے بگ بیش میں ملبرن سٹارز کی طرف سے زبردست بولنگ کی۔ ایک ہیٹ ٹرک نے ان کاقد مزید بڑھادیا ہے۔
ان کے ساتھ عثمان شنواری، یاسر شاہ، سمت پٹیل اور محمد حفیظ کی موجودگی میں ایک متوازن سکواڈ نظر آتا ہے جبکہ کمک کے لیے سری لنکن سپنر پراسنا اور ڈیوڈ ویزے بھی ہوں گے۔ وکٹ کیپر کے لیے آسٹریلیا کے بین ڈنک کا انتخاب کیا گیا ہے۔
کراچی کے جاہد علی، دلبر حسین اور فرزان راجہ بھی بینچ پر موجود ہوں گے۔
لاہور قلندرز کی ٹیم اس سال متوازن بھی ہے اور پرعزم بھی۔ تجربہ اور جوش کا یہ سنگم ہوسکتا ہے وہ کچھ کر دکھائے جس کی اب تک لاہور کے باسیوں کو آرزو ہی ہے۔
پچھلی ساری لیگز عرب امارات میں کھیلی گئی ہیں اس لیے شائقین کا جوش و خروش ٹی وی پر دیکھ کر ہی پورا ہو جاتا تھا۔
لیکن یہ ایڈیشن مکمل طور پر پاکستان میں ہونے سے توقع ہے کہ کرکٹ کا صحیح رنگ ڈھول تاشوں کی آوازوں کے ساتھ ابھرے گا، جس میں کرکٹ کی سفید گیند کے ساتھ لاہور کی روایتی بسنت کی دھنک بھی ہو گی۔
21 فروری کی شام قذافی سٹیڈیم میں ملتان سلطانز کے مقابلے میں لاہور قلندرز جب میدان میں اترے گی تو ہو سکتا ہے لاہور کی ہر گلی میں کھانوں کی مہک کے ساتھ ڈھول کی تھاپ پر لاہوری جیالے لال قلندر کی مستانی دھن پر دھمال ڈال رہے ہوں اور میدان میں لاہور قلندرز ملتان سلطان کو مٹی چٹارہے ہوں۔