کراچی میں واقع حبیب یونیورسٹی کے طلبہ نے چین کے شہر ووہان سے جنم لینے والے کرونا وائرس کی روک تھام کے لیے ایک ایپ تیار کی ہے، جسے وہ امریکی یونیورسٹی ٹیکساس اے اینڈ ایم میں منعقدہ بین الاقوامی مقابلے میں پیش کرنے کے لیے پر امید ہیں۔
امریکی یونیورسٹی ٹیکساس اے اینڈ ایم کی جانب سے دنیا بھر کی 48 جامعات میں ’انوینٹ فور دی پلینٹ‘ (اپنے سیارے کے لیے ایجاد کریں) کے نام سے ایک مقابلے کا انعقاد کیا گیا ہے۔اس مقابلے میں دنیا کے 12 عالمی مسائل پر حل تجویز کرنے کے لیے طلبہ کو 48 سے 72 گھنٹے کا وقت دیا جاتا ہے جس میں ہر یونیورسٹی سے متعدد ٹیمیں حصہ لیتی ہیں اور ان میں سے تین فاتح ٹیموں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کراچی میں واقع حبیب یونیورسٹی سے بھی مختلف ٹیموں نے اس عالمی مقابلے میں حصہ لینے کے لیے اپنی انٹریز جمع کروائیں۔ ان میں دوسرے نمبر پر آنے والی ٹیم نے کرونا وائرس کی روک تھام کے لیے ’ورلڈ اگینسٹ کرونا‘ کے نام سے ایک ایپ بنائی ہے۔
چھ طلبہ پر مشتمل اس ٹیم میں شامل ارہم اشتیاق، سارہ محمود، معاذ ارشد شاہین اور ماہین انیس کا تعلق حبیب یونیورسٹی کے کمپیوٹر سائنس ڈیپارٹمنٹ، اریبہ رفیق کا تعلق کمیونیکیشن اور ڈیزائن ڈیپارٹمنٹ جبکہ سیدہ فاطمہ ہاشمی کا تعلق سوشل ڈویلپمنٹ اینڈ پالیسی دیپارٹمنٹ سے ہے۔
اس ٹیم نے 48 سے 72 گھنٹوں میں اس ایپ کو تیار کیا، جسے کرونا وائرس کی روک تھام کے لیے جلد ہی پاکستان بھر کے کلینکوں، ہسپتالوں، ایئر پورٹس اور دیگر جگہوں پر استعمال کے لیے عام کیا جائے گا۔
اس ایپ کا مقصد کیا ہے؟
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے حبیب یونیورسٹی کے طالب علم ارہم اشتیاق نے بتایا: ’دنیا میں کئی ادارے اس وقت کرونا وائرس کے حوالے سے ڈیٹا جمع کر رہے ہیں لیکن اتنی معلومات ہونے کے باوجود بھی ابھی تک اس بات کا تعین نہیں کیا جاسکا کہ آخر یہ وائرس کس طریقے سے پھیل رہا ہے اور اس کی روک تھام کے لیے کیا کیا جا رہا ہے۔ اب تک دنیا بھر میں اس وائرس کے پھیلنے کی مختلف وجوہات رپورٹ ہوئی ہیں اور نہ صرف ان میں اضافہ ہوتا جارہا ہے بلکہ بتدریج تبدیلی بھی آتی جارہی ہے۔ اب تک اس وائرس سے 50 ہزار سے زائد افراد متاثر ہوچکے ہیں۔‘
’آرٹیفیشل انٹیلی جنس کو استعمال کرتے ہوئے ہماری یہ ایپ آپ کو اس حوالے سے معلومات فراہم کرے گی کہ دنیا کے کس ملک کے کس شہر میں کرونا وائرس زیادہ پھیل رہا ہے اور اس کی کیا وجوہات ہیں تاکہ اسی کے مطابق اقدامات کیے جاسکیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم اس ایپ کے ذریعے دنیا بھر کے لوگوں کو آگاہ کریں کہ اس وائرس سے بچنے کے لیے وہ اپنے شہر یا اپنے علاقے میں کس بات کا خیال رکھیں۔‘
یہ ایپ کام کس طرح کام کرے گی؟
ارہم اشتیاق کے مطابق ان کی یہ ایپ دو حصوں میں تقسیم کی گئی ہے۔ ایپ کا پہلا حصہ ایک آسان سے فارم پر مبنی ہے جو ایئرپورٹس، ہسپتالوں، ریسرچ سینٹرز اور دیگر اداروں کی جانب سے بھرا جائے گا۔ اس فارم میں کرونا وائرس کے مریض کی بنیادی معلومات موجود ہوں گی تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ ہر شہر اور ہر علاقے کے اندر کرونا وائرس کے مریضوں میں کون سی علامتیں عام ہیں۔
ارہم کا کہنا تھا کہ ’ایپ کا دوسرا حصہ ایک مشین لرنگ ماڈل پر مبنی ہے جو آرٹیفیشل انٹیلی جنس سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ ہمیں اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ جو ڈیٹا ہمارے پاس جمع ہوا ہے، اس سے ہم سمجھ سکیں کہ کرونا وائرس پوری دنیا میں کہاں کہاں پھیل رہا ہے اور کس حساب سے پھیل رہا ہے۔ پھر یہ مشین لرننگ ماڈل ہمیں ڈیٹا اور گرافس کے ذریعے یہ بتائے گا کہ اس وائرس کے تدارک کے لیے ہمیں کس شہر میں کس بات کا خیال رکھنا چاہیے۔‘
ٹیم کی ایک اور رکن سیدہ فاطمہ ہاشمی نے بتایا: ’اس ایپ کی دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا بھر سے جمع ہونے والا ڈیٹا انتہائی عام فہم انداز میں ایپ پر موجود ہوگا۔ جو بھی اس ایپ کو کھولے گا اسے سب سے پہلے اینیمیشن کے ذریعے یہ بتایا جائے گا کہ دنیا کے کس ملک کے کس علاقے میں کتنے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں اور ان کیسز میں کیا عام وجوہات تھیں جن کی بنا پر یہ وائرس اس علاقے میں پھیلا۔ اس معلومات کے ذریعے لوگ فوری طور پر اس وائرس سے خود کو اور اپنے پیاروں کو بچاسکیں گے۔‘