جب میں پاکستان تحریک انصاف کا رکن تھا تو کئی درجن مرتبہ عمران خان اور ان کی مرکزی کمیٹی کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ مخالف سیاسی جماعتوں پر الزامات اور ان کے رہنماؤں کے خلاف بد تہذیبی اچھا شیوا نہیں۔
یہ بات اس لیے واضع کی تھی کہ اگر پارٹی نے مستقبل میں حکومت بنائی تو وہ مخلوط حکومت ہوگی جس سے پارٹی کو ہزیمت اٹھانی پڑے گی۔ مگر پارٹی کے رہنماؤں کو یہ بات کبھی نہ بھائی، اس لیے کہ ان کی تمام سیاست کا محور یہی ہے کہ باقی سب برے ہیں صرف ہم اچھے ہیں۔
اس رویے کو انگریزی اصطلاح میں God Complex کہتے ہیں۔ اس رویے میں آدمی یا گروہ سمجھتا ہے کہ صرف وہ اچھے ہیں جبکہ باقی سب لوگ برے اور یہ بھی کہ صرف ان کے پاس مسائل کا حل ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو برائیاں پی پی پی اور مسلم لیگ ن میں ہیں وہی برائیاں پی ٹی آئی میں بھی موجود ہیں، یعنی ان سب میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ غرور اور رعونیت ہی آج عمران خان اور ان کی پارٹی کی حکومت کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ ہے۔
آج کچھ اسی طرح کی صورت حال نئی جمہوریہ کی تحریک میں ہمیں بھی درپیش ہے۔ میں اپنے سیاسی بیانات میں بار بار اس بات پر زور دے رہا ہوں کہ تمام سیاسی پارٹیوں کو مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر ایک نئی جمہوریہ کے خدوخال ترتیب دینے ہوں گے۔ اس کے جواب میں ہمارے بہت سارے حمایتی یہ پیغام بھیجتے ہیں کہ ہمیں ان پارٹیوں سے بات چیت نہیں کرنی چاہیے اور ان کے بغیر نئی جمہوریہ ترتیب دینی چاہیے۔ یعنی ایک طرح سے ہمیں بھی God Complex کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ان تمام لوگوں کو اس تحریر کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔
میں اتفاق کرتا ہوں کہ ہماری پرانی سیاسی جماعتوں خاص طور پر پی پی پی اور مسلم لیگ ن نے اس قوم کو بہت مایوس کیا اور ہمارے بہت سے مسائل کی وجہ انہی دونوں پارٹیوں کے غلط سیاسی فیصلے ہیں۔ اس لیے میں متفق ہوں کہ ان پارٹیوں پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ اسی لیے اس بات کی شرط رکھی ہے کہ وہ سیاسی مذاکرات قابل قبول نہیں ہوں گے جس میز پر ہم موجود نہ ہوں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ پرانی سیاسی پارٹیوں کو پاکستانیوں کی ایک کافی بڑی تعداد کی حمایت حاصل ہے۔ ہم ان تمام لوگوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے بلکہ ہمیں ان لوگوں کو اپنے ساتھ ملانا ہوگا۔ اصلاحی تحریکیں لوگوں کو جوڑتی ہیں توڑتی نہیں۔ مجھے اس بات کا یقین ہے تمام پارٹیوں کے ارکان اور ووٹرز اس ملک کو سدھارنا چاہتے ہی،ں اس لیے ہمیں مل کر کام کرنا ہوگا۔ جب مذاکراتی میز پر بیٹھیں گے تو مجھے یقین ہے کہ تمام سیاسی مسائل پر اتفاق رائے پیدا ہوگا۔
دوسری بات یہ کہ پارٹی سربراہان خاص طور پر نواز شریف، شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری صاحب اپنی ذات سے اوپر نہ اٹھ سکے اور پارٹیوں کو خاندانی مفادات کے لیے استعمال کیا۔ ان پارٹیوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو جمہوری رویہ رکھتے ہیں اور جنہیں سیاست کا کئی دھائیوں کا تجربہ ہے۔
ہمیں نئی جمہوریہ کی تعمیر میں ان کے تجربے سے فائدہ اٹھانا ہوگا ورنہ پھر سے غلطیاں ہونے کا اندیشہ ہے۔ اسی لیے میں نے یہ بات بھی بار بار کہی کہ مذاکرات انہی جمہوریت پسند لوگوں سے ہو سکتے ہیں اور ان سے نہیں جو پارٹی سربراہوں کے تنخواہ دار ہیں۔
تیسری بات یہ کہ ہمیں دوسرے ملکوں کے تجربات سے بھی سیکھنا ہوگا۔ نیلسن مینڈیلا پر جن لوگوں نے ظلم کیے انہیں کے ساتھ بیٹھ کر ایک نئی جمہوریہ قائم کی۔ ابراہم لنکن نے جن لوگوں کو خانہ جنگی میں شکست دی انہیں ہی عام معافی دی اور دوبارہ معاشرے کا حصہ بنایا۔ بسمارک نے ایک کوشش یہی کی کہ جرمنی میں جو دراڑیں تھیں انہیں بھرا جائے۔
عمران خان کو میں نے اصلاحی سیاست دان اسی لیے نہیں سمجھا کیونکہ وہ ہر وقت لوگوں کو توڑنے میں لگے رہتے ہیں اور دوسروں کو اپنے آپ سے کمتر سمجھتے ہیں۔
یہاں تک کہ جن لوگوں نے دوسرے پارٹیوں کو ووٹ دیے ان کا بس چلے تو انہیں ملک بدر کر دیں۔ یہ رویہ نہ ملک کو کوئی فائدہ دے سکتا ہے اور نہ اس سے ترقی ہو سکتی ہے۔ ہماری نئی جمہوریہ کی تحریک کامیاب ہی اُس وقت ہوگی جب سب مل کر اس ملک کو ایک نئے سرے سے تعمیر کریں گے۔
کوئی بھی شخص صرف اس بات کی ضمانت دے سکتا ہے کہ وہ خود یا اس کی پارٹی ایمان دار ہو، مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی یہ دعوی کرے کہ وہ دوسروں کو بزور ڈنڈا پارسائی سکھائے گا جبکہ وہ خود انہیں برائیوں میں ملوث ہو۔
عمران خان کی آج یہی کیفیت ہے اور سیاسی، معاشی اور معاشرتی انحطاط کی یہی وجہ ہے۔ نئی نظام میں ہمیں لوگوں کو یہ موقع دینا ہوگا کہ وہ بذات خود اور بغیر کسی دباؤ کے اس بات کو مانیں کہ ایمان داری، ذمہ داری اور خلوص کے ساتھ اس ملک کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔