پاکستان کی سیاسی جماعتیں اپنی ساخت اور رویے میں پارٹیاں نہیں ہیں۔ اس لیے کہ کسی بھی سیاسی تنظیم کے اصل مالک اور مختار اس کے کارکن ہوتے ہیں اور پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب لوگ اپنے ووٹروں اور کارکنوں کو جوابدہ ہوتے ہیں۔
پاکستان کی سیاسی جماعتیں چند خاندانوں کی ملکیت ہیں اور فیصلے کرنے کا اختیار صرف پارٹی مالکان کو حاصل ہے۔ ہر پارٹی میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کی ذاتی ساکھ پارٹی مالکان سے بھی زیادہ اچھی ہے۔ جب بھی پارٹی مالکان کے غلط فیصلوں سے عوام میں مقبولیت کم ہونے لگتی ہے تو ان لوگوں کو آگے کر دیا جاتا ہے تاکہ اسے سنبھال سکھیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی میں قمر زمان کائرہ، فرحت اللہ بابر، رضا ربانی اور شیری رحمان چند ایسے نام ہیں۔ اسی طرح پاکستان مسلم لیگ ن میں شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال بھی اپنی پارٹی اور قوم میں اچھی شہرت رکھتے ہیں۔ آج کل ان کے ذمے یہ کام ہے کہ پارٹی کی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالیں۔
دونوں حضرات ایک دن میں کئی کئی ٹی وی ٹاک شوز میں شرکت کر رہے ہیں، مگر ان کے بیانات میں اتنے تضادات ہیں کہ اللہ معافی۔ مثلاً ایک سانس میں شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ میں آرمی چیف کے ایکسٹینشن قانون کی حمایت کرتا ہوں لیکن دوسری سانس میں کہتے ہیں اس سے ملک کا نقصان ہوگا۔
جناب اگر کسی قانون سے ملک کا نقصان ہوتا ہے تو پھر کس بنیاد پر آپ اس کی حمایت کرتے ہیں، یعنی ملک کا نقصان ہوتا ہے تو ہو جائے مگر چونکہ پارٹی مالک نے کہہ دیا کہ ٹھپہ لگانا ہے تو بس ملک جائے بھاڑ میں۔
پھر کہتے ہیں کہ نیب کا چیئرمین میں نے لگایا لیکن ان کی کارکردگی میرے ذمہ نہیں۔ کیوں آپ کے ذمہ نہیں ہے؟ اگر آپ ائیر بلیو کے چیئرمین ہیں اور کسی آدمی کو اس کا چیف ایگزیکٹو مقرر کرتے ہیں تو کیا اس کی خراب کارکردگی آپ کے کھاتے میں نہیں آئے گی؟
کیا آپ نے نیب کا چیئرمین تعینات کرنے سے پہلے اس آدمی کا انٹرویو کیا تاکہ اندازہ لگایا جا سکے کہ اس میں صلاحیت ہے بھی کہ نہیں اور کیا وہ اس کام کے قابل ہے بھی کے نہیں؟ پھر کہتے ہیں کہ سب کو مل کر کام کرنا ہوگام، مگر اقتدار کی دوڑ میں جب ضرورت پڑتی ہے تو نعرہ لگاتے ہیں خلائی مخلوق اور اگلے ہی لمحے میں قوم کو کہتے ہیں ووٹ کی عزت زیادہ ضروری نہیں اور خلائی مخلوق بھی بس دل بھلانے کا خیال تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال قوم کو یہ بھی سمجھا رہے ہیں کہ ٹی ٹی کے ذریعہ جو پیسہ باہر سے آیا وہ تو حلال ہے لیکن یہ نہیں بتا رہے کہ ان ٹی ٹیوں کو حلال بھی انہی کی حکومتوں نے قرار دیا۔ چلیں کم از کم اس بات سے تو انکار نہیں کر رہے کہ ان کے پارٹی مالکان نے باہر سے یہ پیسہ منگوایا، جس کے ذرائع کا کچھ پتہ نہیں۔
دونوں حضرات اب بھی قوم سے حقائق چھپا رہے ہیں اور اصلاح کی بجائے اقتدار کی سیاست میں لگے ہیں، جو انتہائی دکھ کی بات ہے۔ یہ دونوں قابل بھی ہیں اور تعلیم یافتہ بھی اگر یہ بھی قومی مفاد پر پارٹی مفاد کو ترجیح دیں تو پھر اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔
شکر ہے ان دونوں نے ہماری اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ شہباز شریف کی قومی حکومت اور ان ہاؤس تبدیلی کی تجاویز ناقابل عمل ہیں اور انہیں رد کر دیا ہے۔ انہوں نے ہماری اس بات کی بھی تائید کی ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ قومی مذاکرات کیے جائیں جس میں سب میز پر موجود ہوں۔ ہمیں وہ مذاکرات قبول نہیں ہوں گے جس میں ہم موجود نہ ہوں۔ اس لیے کہ شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال دونوں یہ بات کئی دفعہ قبول کر چکے ہیں کہ انہوں نے ماضی میں غلط فیصلہ کیے، جس سے اس قوم کا کافی نقصان ہوا۔
اگر وہ ماضی میں ہماری تجاویز مان لیتے مثلاً جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کی شرکت سے اختلاف، نیب کو سیاسی انجینیئرنگ سے روکنے کے لیے بند کرنا، الیکشن میں انجینیئرنگ اور دھاندلی کی پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے تحقیقات اور ایکسٹینشن قانون میں ترمیم تو شاید آج صورت حال مختلف ہوتی۔
آج نواز شریف مختلف طریقوں سے قوم کو یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ایکسٹینشن قانون میں ان کی ہدایت پر عمل نہیں کیا گیا جس میں انہوں نے اپنی جماعت کو سربسجود ہونے کا نہیں کہا تھا لیکن اب بہت دیر ہو چکی ہے۔
ان تمام ماضی کی سیاسی غلطیوں سے یہ بات واضع ہے کہ وہ مذاکرات جس میں ہم میز پر موجود نہ ہوں ایک قومی غلطی ہوگی، اس لیے کہ اس بات کا امکان ہے کہ یہ لوگ ایک دفعہ پھر غلط فیصلے کر سکتے ہیں۔ اس لیے کہ ان کی نگاہ اقتدار پر زیادہ اور عوامی مفاد پر کم رہتی ہے۔ ہم آج اس موڑ پر کھڑے ہیں کہ مزید غلط فیصلے اس قوم کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتے ہیں۔
میں مسلسل تمام پارٹیوں سے رابطے میں ہوں اور حکومت میں شامل ایک اتحادی جماعت نے بھی اس بات پر آمادگی ظاہر کی ہے کہ وہ اس ایک قومی مذاکراتی عمل میں شامل ہونے کو تیار ہیں۔ اس وقت رکاوٹ پارٹی مالکان ہیں اس لیے کہ انہیں اس بات کا خوف ہے کہ سیاسی اصطلاحات میں سب سے زیادہ نقصان ان کا ہوگا۔ اس لیے کہ ان کی اپنی پارٹیوں پر گرفت کمزور ہو جائے گی۔
یہ شاہد خاقان اور احسن اقبال کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے پارٹی مالکان کو ان قومی مذاکرات پر قائل کریں۔ یہی کام پی پی پی میں فرحت اللہ بابر، شیری رحمان اور رضا ربانی کو کرنا پڑے گا۔ ہماری پہلی وابستگی اس ملک سے ہے اور دوسری اپنی سیاسی پارٹیوں سے، جب تک ہم اپنی وفاداری کی ترجیحات کو درست نہیں کرتے تو ہم دائروں میں ہی گھومتے رہیں گے۔