کرونا وائرس کے خدشے کے باعث پاکستان کی سرحدیں بند ہونے کے باوجود جمعرات کو بھی 100 سے زائد زائرین ایران سے پاکستان میں داخل ہوئے۔
عرب نیوز کو موصول ہونے والی دستاویز کے مطابق جمعرات کو داخل ہونے والے زائرین پاکستانی حکومت کی جانب سے سرحد بند کرنے کے اعلان کے بعد پاکستان کی حدود میں داخل ہوئے۔
پاکستان اور ایران کے درمیان 900 کلومیٹر طویل سرحد ہے، جہاں سے پاکستان میں رہنے والے شیعہ مسلمان ایران میں مذہبی مقامات کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔
گذشتہ ہفتوں میں ایران سے واپس آنے والے زائرین کے بلوچستان میں تفتان کے مقام پر قیام کے دوران قرنطینہ انتظامات میں بدنظمی اور ٹیسٹنگ نہ ہونے کی وجہ سے تفتان کرونا وائرس کیسز کا مرکز بن گیا تھا۔
پاکستان میں جمعے تک کرونا سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد 1200 سے تجاوز کر چکی ہے۔ منگل کو وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے بتایا تھا کہ پاکستان میں سامنے آنے والے 78 فیصد کیسز کی سفری تفصیلات میں ایران شامل ہے۔ ایران میں کرونا کیسز کے سامنے آنے کے بعد پاکستان نے ایران سے ملحقہ سرحد کو 16 مارچ کو بند کر دیا تھا۔
عرب نیوز کی اطلاعات کے مطابق فروری سے ایران سے پاکستان میں داخل ہونے والے زائرین کی تعداد 6080 ہے جن میں جمعرات کو داخل ہونے والے 113 افراد بھی شامل ہیں۔
6080 افراد میں سے 4596 کو اپنے اپنے صوبوں میں واقعہ قرنطینہ سینٹرز میں بھیجا جا چکا ہے جبکہ 1484 افراد ابھی تک تفتان میں مقیم ہیں۔
بلوچستان کے وزیر داخلہ ضیا اللہ لانگو کے مطابق صوبائی حکومت نے وبا کے سامنے آتے ہی وفاقی حکومت سے رابطہ کیا تھا کہ ایرانی حکام کو آگاہ کیا جائے کہ وہ پاکستانی زائرین کو سکریننگ کے بغیر پاکستان واپس نہ بھیجیں۔ ان کے مطابق صوبائی حکومت نے بھی ایرانی حکام کو اس تشویش سے آگاہ کیا تھا۔
ضیا اللہ لانگو کے مطابق ہزاروں زائرین کی واپسی کی صورت میں ان کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا سوائے اس کے کہ پاکستانی زائرین کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت دے کر انہیں تفتان میں قرنطینہ میں رکھا جائے۔
ان کے مطابق بلوچستان حکومت نے زائرین کو قرنطینہ میں رکھنے اور مکمل ریکارڈ کے ساتھ باقی صوبائی حکومتوں کے حوالے کرنے کی اپنی ذمہ داری کو بخوبی نبھایا ہے۔
دوسری جانب ڈاکٹر ظفر مرزا نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'جب ایران سے پاکستانی زائرین واپس آئے تو ہم نے اپنی حکمت عملی کے مطابق انہیں تفتان قرنطینہ میں رکھا اور جب انہوں نے قرنطینہ میں رکھی جانے والی اپنی مدت پوری کر لی تو ہم نے انہیں مخصوص سفری حفاظت کے ساتھ ان کے صوبوں میں پہنچا دیا۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جمعے کو ایک میڈیا بریفنگ کے دوران پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ بلوچستان حکومت کے پاس ایران سے آنے والے زائرین کے لیے مناسب انتظامات کرنے کے لیے فنڈز موجود نہیں تھے۔
رواں ہفتے اسلام آباد ہائی کورٹ نے اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ایک اعلیٰ سطح کا عدالتی کمشن بنانے کا حکم جاری کیا ہے تاکہ پاکستان میں کرونا وائرس کے پھیلنے کے ذمہ داروں کا تعین کیا جا سکے۔
بلوچستان حکومت کے ایک سینئیر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر عرب نیوز کو بتایا کہ 'ایران اور افغانستان کے بارڈرز 16 مارچ سے بند تھے اور دونوں ممالک کو اس حوالے سے اطلاع کر دی گئی تھی لیکن اس کے باوجود ایران سے زائرین کی آمد جاری رہی۔'
دوسری جانب پاکستان دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی کے مطابق: 'پاکستان اور ایران کے درمیان اس حوالے سے دو طرفہ تعاون کے تحت اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں اور تمام معاملات کے حل کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔'
اسلام آباد میں مقیم ایک اہلکار جنہوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر عرب نیوز کو بتایا کہ وہ ایک ایسی انٹیلی جنس رپورٹ سے واقف ہیں جس کے مطابق وفاقی حکومت کو کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد تفتان بارڈر پر کسٹم افسران کو تبدیل کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔
گذشتہ ہفتے حزب اختلاف کی جماعتوں اور صحافیوں کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے مشیر برائے بیرون ملک پاکستانیوں سید ذوالفقار عباس بخاری پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے اپنا 'اثرورسوخ' استعمال کرتے ہوئے زائرین کو پاکستان میں داخلے کی اجازت دلوائی تھی۔
تاہم عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے ذوالفقار بخاری کا کہنا تھا کہ 'میرا تفتان کے معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی اس حوالے سے میں کوئی اختیار رکھتا ہوں۔' ان کے مطابق ان پر لگائے جانے والے الزامات بے بنیاد ہیں۔