اٹلی میں کرونا (کورونا) وائرس سے پہلی موت 26 فروری کو واقع ہوئی اور دو مہینے بعد 26 ہزار سے زائد افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ ان حالات میں ایک طرف تو مرنے والوں کے رشتے دار اپنے پیاروں کی موت کا غم منارہے ہیں، وہیں بیشتر لوگ یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ آخر اتنی ہلاکتوں کا ذمہ دار کون ہے؟
اٹلی میں مقیم صحافی عالیہ صلاح الدین بتاتی ہیں کہ یہاں کے ایک بڑے پبلشنگ ہاؤس نے 'Memorie' (یادیں) کے نام سے ایک ویب سائٹ بنائی ہے، جہاں لوگ مرنے والوں کی زندگیوں کی کہانیاں لکھ رہے ہیں اور اپنی یادیں شیئر کر رہے ہیں۔
ایک جگہ ایک بیٹے نے اپنے والد کے لیے لکھا کہ 'مجھے بہت تکلیف ہے کہ آپ کے آخری وقت میں، میں آپ کے ساتھ نہیں تھا اور آپ اکیلے تھے۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تو دوسری طرف ایک ڈاکٹر کے لیے کمیوںٹی کے لوگوں نے لکھا کہ 'آپ نے ہمیشہ ہماری مدد کی لیکن جب آپ کو مدد کی ضرورت تھی تو آپ اکیلے تھے۔ ہم آپ کو آخری سلام بھی پیش نہ کرسکے۔'
لیکن اس شدید کرب اور درد کے ساتھ سوگواروں کے دلوں میں شدید غصہ بھی ہے، جس کا اظہار وہ دیگر ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پر کر رہے ہیں۔
وہاں پر بھی مرنے والوں کی کہانیاں بتائی جارہی ہیں لیکن یہ کہانیاں ان کی زندگیوں کی نہیں بلکہ ان کے مرنے کی کہانیاں ہیں کہ ان کی موت کن حالات میں ہوئی۔
اٹلی کے لوگ سوال پوچھ رہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا ان کے پیاروں کو بچایا جاسکتا تھا؟ کیا ان کی مدد پوری طرح کی گئی؟ کیا اداروں کی غلطی تھی؟ کیا ٹیسٹنگ پوری طرح ہوئی؟ کیا لاک ڈاؤن صحیح وقت پر ہوا؟ نرسنگ ہومز میں جو ہزاروں لوگ مرگئے کیا وہ بچائے جاسکتے تھے؟
عالیہ کے مطابق لوگ حساب مانگ رہے ہیں، وہ انصاف چاہتے ہیں۔ اٹلی کے اندر انکوائریز شروع ہوچکی ہیں اور ممکن ہے کہ دیگر ملکوں میں بھی یہی ہو کہ پہلے قوم ہلاکتوں پر افسوس کرے اور پھر رشتے دار سوال کریں کہ کیا ہمارے پیارے بچائے جاسکتے تھے؟ اور کیا حکومت اور اداروں نے وہ سب کچھ کیا جو اُن کو کرنا چاہیے تھا؟