ڈاکٹر کن حالات میں ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں؟

ایک ڈاکٹر کی کہانی جو کرونا وائرس کے خطرے کے باوجود ہسپتال میں 24 گھنٹے کی شفٹ میں ڈیوٹی کر رہے ہیں۔

(اےایف پی)

رات کے دو بجے ہیں، گھڑی کی ٹک ٹک ماحول کے شور میں کہیں کھو سی گئی ہے۔ بعض اوقات شدید مصروفیت میں وقت رک سا جاتا ہے۔

میں الائیڈ ہسپتال کے ہڈی و جوڑ وارڈ میں موجود اپنی خدمات پہ معمور ہوں، نیند آنکھوں سے کوسوں دور ہے، سونے کے لیے جب بھی آنکھیں موندوں، کسی مریض کا لواحق ڈاکٹرز روم کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے کہ ہمارا مریض چیک کریں ہے اور میرے سن ہوتے وجود میں ایک بار پھر خون دوڑنے لگتا ہے۔ میں اس کے بیڈ پر جاتا ہوں، دوا لکھتا ہوں۔ اور واپس ڈاکٹرز روم میں آ جاتا ہوں۔

یہ سلسلہ صبح آٹھ بجے سے جاری و ساری ہے، 24 گھنٹے کی کال ختم ہونے میں ابھی بھی چھ گھنٹے باقی ہیں۔ میرے تمام سینیئر ڈاکٹر میری مدد کے لیے آن کال موجود ہیں اور کسی بھی پریشانی پر میرے لیے دوڑے چلے آنے پہ آمادہ ہیں۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے، مجھے میرے دوست ڈاکٹر فرحان کی کال آئی تھی، وہ کہہ رہا تھا کہ سحری اکٹھے کریں گے اور یوں میرے خشک ہوتے ہونٹوں پہ مسکراہٹ در آئی۔

یہ صرف میری جانفشانی کی کہانی نہیں، یہ ہر اس ڈاکٹر کی کہانی ہے، جو ہر سرکاری و نجی ہسپتال میں اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہے۔ اپنا سکون و آرام برباد کر کے انسانیت کی بےلوث خدمت کر رہے ہیں۔ اپنے اس حلف کا مان رکھے ہوئے ہے کہ فیلڈ میں جا کے ملک و قوم کی خدمت میں جان لگا دینی ہے اور کسی خوف اور پریشانی کو ڈیوٹی پہ حاوی نہیں ہونے دینا۔

کرونا (کورونا) وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ڈاکٹر ہو رہے ہیں، میرے اپنے وارڈ کے 13 ڈاکٹر قرنطینہ میں ہیں اور ٹیسٹنگ کے عمل سے گزر رہے ہیں، اسی وجہ سے باقی ڈاکٹروں پر کام کا بوجھ زیادہ ہے، یہ سرجیکل وارڈ کی صورت حال ہے، میڈیسن وارڈ کا آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں۔

ہر ڈاکٹر اپنی ہمت سے زیادہ کام کر رہا ہے، لیکن بدقسمتی یہ ہے ان سب خدمات کے باوجود بھی ہم ڈاکٹروں کو گالیاں دیتے ہیں، ان سے بدتمیزی کرتے ہیں، لواحقین ڈاکٹروں پر ہاتھ تک اٹھا دیتے ہیں، سوشل میڈیا پر ان کے خلاف مہمیں چلاتے ہیں اور حکام بالا تک بات بھی پہنچاتے ہیں جو ان کی سن کر ڈاکٹروں کے خلاف سخت کارروائی کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 میری ذاتی زندگی اور روزمرہ کی روٹین اسی ہسپتال کی فضا میں گم ہو گئی ہے۔ مجھے اپنے دوستوں سے بات کیے بھی عرصہ دراز ہو گیا ہے، کوئی کسی وارڈ میں مصروف ہے تو کوئی کسی اور میں، جس دن میری چھٹی ہوتی ہے، وہ ڈیوٹی پر ہوتے ہیں اور چل سو چل، اگر قسمت اچھی ہو تو افطاری یا سحری پر ملاقات ہوتی ہے۔ یہ ملاقات بھی روایتی ملاقات نہیں ہوتی، ہم اپنے اپنے وارڈ کے مریض ہی ایک دوسرے سے ڈسکس کرتے ہیں۔ اب چونکہ پروفیشن میں آ گئے ہیں تو پوری طرح اس میں ڈھل گئے ہیں۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ ابھی بھی ڈاکٹر بغیر حفاظتی سامان کے کام کر رہے ہیں، نرسیں اور پیرا میڈیکل سٹاف بھی اسی صورت حال سے دوچار ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں کرونا سے متاثرہ مریض آ رہے ہیں اور جو بھی ڈاکٹر ان کو چیک کرتا ہے، اس میں انفیکشن کا خطرہ بھی باقیوں کی نسبت زیادہ بڑھ جاتا ہے، لیکن یہ پھر بھی ان کو اتنی ہی لگن سے چیک کرتے ہیں۔

حفاظتی سامان کے لیے احتجاج کرتے ضرور ہیں، لیکن اگر سامان نہ بھی ملے، مریض کا معائنہ نہیں چھوڑتے۔ میرے اپنے ہی بہت پیارے سینئیر، ڈاکٹر مبشر ابرار بھی کرونا کا شکار ہو گئے تھے، ان کا علاج ابھی بھی جاری ہے، یہی صورت حال ہر دوسرے ڈاکٹر کی ہے۔

لیکن ان سب مشکل حالات کے باوجود جب ہماری دوا سے مریض کو سکون ملتا ہے، اس کے ساتھ آئے لوگ، جب دعائیں دیتے ہیں، شکریہ ادا کرتے ہیں تو ساری مشکلیں بھول جاتی ہیں، دل مطمئن ہو جاتا ہے، جو لوگ سوشل میڈیا پر گالیاں دیتے ہیں وہ پھر کوئی معنی نہیں رکھتیں۔

شاید انہی خوبیوں کی وجہ سے ڈاکٹر اس قوم کا فخر ہیں، جو دوسروں کے لیے جیتے ہیں، دوسروں کو سکون دینے کے لیے، اپنے سکون کی قربانی دیتے ہیں۔ حالات چاہے کتنے ہی ناساز کیوں نہ ہوں، یہ آپ کی خدمت کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ شفا تو خدا کی ذات دیتی ہے مگر اس کے وسیلے یہاں دنیا میں مخصوص لوگوں کی جانب سے ہی پہنچتے ہیں، سو خدا اور خدا کے وسیلوں کی قدر اور شکرگزاری انسان کے بڑےپن کی علامت ہے۔

فائنل ائیر میں سینیئر ہمیں سمجھایا کرتے تھے کہ آپ جس شعبے میں آ چکے ہیں، اس کا ایک ہی اصول ہے وہ ہے بے لوث خدمت، آپ کے لیے سب سے زیادہ اہم آپ کا مریض ہے، اب یہ بات سمجھ آ چکی ہے، اب ڈاکٹروں کو دن رات یوں کام کرتے دیکھتا ہوں، تو اللہ کا شکر بجا لاتا ہوں کہ اس نے مجھے اس شعبے کے لیے چنا۔

اب سحری کا وقت ہے، ڈاکٹر فرحان میرا انتظار کر رہے ہیں، باقی باتیں پھر سہی۔ دعا کیجیے کہ قوم کے سپوت اپنا کام اسی جانفشانی اور محنت سے کرتے رہیں اور ان کی زندگیاں محفوظ رہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ