اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو مقبوضہ فلسطینی علاقوں کو صہیونی ریاست میں ضم کرنے کے منصوبے پر عمل کرنے جا رہے ہیں جس کے بعد اسرائیل، غرب اردن کے مقبوضہ فلسطینی علاقے کے مکمل ایک تہائی حصے پر اپنی عملی داری حاصل کر لے گا۔
فلسطینی اراضی پر ناجائز قبضہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ’ڈیل آف دی سینچری‘ میں بیان کردہ منصوبوں کی صرف ایک شق ہے۔ نیتن یاہو نے واضح کیا ہے کہ وہ ’ڈیل آف دی سینچری‘ کی دیگر شرائط پوری کرنے میں دلچپسی نہیں رکھتے۔
انتہا پسند یہودی رہنماؤں کے اجتماع سے سات جون کو خطاب کرتے ہوئے نیتن یاہو نے کہا کہ ’غیرقانونی یہودی بستیوں کے پھیلاؤ کو روکا نہیں جائے گا۔‘
اس سے پہلے وہ واضح کر چکے ہیں کہ غرب اردن میں جو بھی فلسطینی سیٹ اپ بنے، اسے ریاست کا نام نہیں دیا جائے گا۔ نیتن یاہو جانتے ہیں کہ تاریخ میں ان کے پاس یہ مقام پہلی مرتبہ آیا ہے کہ جب ان کے اقدامات کی کوئی باز پرس کرنے والا نہیں، حتی کہ امریکہ دکھاوے کے لیے اسرائیلی اقدامات پر کچھ کہنے کے قابل نہیں۔
اسرائیل کے اندر بھی غرب اردن کے علاقوں کے انضمام سے متعلق نتیجہ خیز بحث ہونے جا رہی ہے کیوں کہ امریکہ نے اسرائیلی اقدام کو پہلے ہی سند جواز فراہم کر دی ہے۔ یورپی ممالک ساری صورت حال پر خاموش ہیں یا پھر وہ فلسطینی حقوق پر اسرائیلی شب خون کے معاملے پر حتمی رائے پیش کرنے میں ناکام ہیں۔
انضمام کے معاملے پر اسرائیلی سیاسی قیادت فلسطینی آبادی کو ہمیشہ ’آبادی بم‘ جیسے خطرے کے طور پر پیش کرتی رہی ہے۔ ان کی خواہش رہی ہے کہ ایسے فلسطینی علاقوں کو پہلے ضم کیا جائے جہاں فلسطینیوں کی آبادی کم ہے۔
چار جون کو اسرائیل نے اعلان کیا کہ 50 ہزار نفوس پر مشتمل غرب اردن کا علاقہ اسرائیلی ریاست میں ضم کیا جائے گا اور وہاں کے باسیوں کو اسرائیلی شہریت نہیں ملے گی۔ اس اعلان کے ذریعے نیتن یاہو نے فلسطینیوں اور اسرائیلوں کو بیک وقت پیغام دینے کی کوشش کی۔
فلسطینیوں کے لیے نیتن یاہو کا پیغام تھا کہ ایک ریاستی حل اب قصہ پارینہ ہو چکا ہے۔ غرب اردن کے فلسطینی علاقے اسرائیل میں ضم ہونے کے بعد فلسطینیوں کو اسرائیلی دستور کے تحت مساوی قانونی حقوق کا مطالبہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہو گا۔
اسرائیلی شہریوں اور بالخصوص اپنی سیاسی جماعت لیکوڈ کے سخت گیر قوم پرست اور مذہبی جماعتوں کے لیے نیتن یاہو کا پیغام تھا فلسطینیوں کی کثیر آبادی اب مزید خطرہ نہیں۔ انضمام کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد یہودی آبادی علاقے میں اکثریت میں آ جائے گی۔
اس کے جواب میں فلسطینی، نیتن یاہو کو کیا پیغام دینے والے ہیں؟
اسرائیل کے انضمام پلان کو عملی جامہ پہنانے کی صورت میں عملی طور پر کیا صورت حال بنتی ہے، اس کے بارے میں یقین سے کچھ کہنا ممکن نہیں۔ ابہام کی وجہ ایک تو فلسطینی سیاسی تناظر ہے جبکہ دوسری جانب اس تاریخی مرحلے پر فلسطین کے معاملے پر عرب دنیا میں یکجہتی بھی دکھائی نہیں دیتی۔
فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کی ناجائز یہودی بستیوں اور اسرائیلی فوج کے درمیان ایک سکیورٹی بفر زون کا کردار ادا کرتی چلی آئی ہے۔ درحقیقت اسرائیل، امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کی نظر میں فلسطینی اتھارٹی کا سیاسی جواز ’اسرائیل کو سکیورٹی فراہمی‘ کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
ریاست کی تشکیل سے متعلق فلسطینی اتھارٹی کا زبانی جمع خرچ الفاظ کا گورکھ دھندہ تھا کیونکہ فلسطینی ریاست کا قیام کبھی بھی مغربی سیاسی ایجنڈا کا مرکزی نقطہ نہیں رہا۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے 19 مئی کو فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے اسرائیل اور امریکہ سے تمام معاہدے منسوخ کرنے کا اعلان کیا۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس اعلان کا زمینی حقائق سے کیا تعلق تھا؟
فلسطینی اتھارٹی بجائے خود اس معاہدات کی روشنی میں معرض وجود میں آئی۔ اسے تمام ڈونر ملکوں سے امداد اسی بنا پر ملتی رہی۔ آج اگر وہ اپنے اس کردار کو بھلا کر معاہدات منسوخی جیسے اعلانات کر رہی ہے تو پھر اس کا اپنا وجود ہی خطرے میں ہے۔ ایسے میں کیا ایک مرتبہ پھر تنظیم آزادی فلسطین ’پی ایل او‘ کو ایک مرتبہ فلسطینی کی نمائندگی کا حق نہیں ملنا چاہیے؟
اسرائیل دلیل دے سکتا ہے کہ محمود عباس نے برسرزمین کسی بامعنی اقدام کے بغیر اسرائیل سے معاہدے ختم کیے ہیں جن سے غرب اردن میں فلسطینی مظاہروں کو ہوا ملے گی، جس کے بعد اسرائیل غرب اردن کے تقریباً 30 علاقے کو اپنی ناجائز ریاست میں ضم کر لے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فلسطینی جب سڑکوں پر اسرائیل، امریکہ اور عرب ملکوں کی خاموشی کے لیے احتجاج کریں گے؟ کیا وہ ایسے میں فلسطینی اتھارٹی اور محمود عباس کے کئی دہائیوں پر مشتمل اسرائیل سے تعاون پر بھی تبرا بھیجیں گے جس میں معاشی بدعنوانی عروج پر رہی۔
کامیابی کے مخدوش امکانات سے ڈر کر محمود عباس اور ان کے حواری خود کو اسرائیل کے خلاف اجتماعی فلسطینی ردعمل کی دیوار پیچھے چھپا رہے ہیں۔ باشعور فلسطینی قوم جانتی ہے کہ اسرائیل، فلسطینی علاقوں پر اپنا قبضہ محمود عباس کے براہ راست تعاون کے بغیر ممکن نہیں بنا سکتا تھا۔
اسرائیل اگر غرب اردن کے علاقوں پر بغیر کسی شدید ردعمل کے ہاتھ صاف کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس سے اسرائیلی وزیر اعظم کو مزید حوصلہ ملے گا جس کے بعد وہ مزید فلسطینی اراضی اسرائیل میں ضم کرے گا۔
یہ مرحلہ، صرف اسرائیل کے لیے کامیابی نہیں ہو گا بلکہ فلسطینی کے حوالے استعمار کے تیارکردہ منصوبے کو بھی حتمی شکل دے گا۔ یہ بات بار دگر ثابت ہو چکی ہے کہ فلسطین کی بزرگ اور بدعنوان قیادت کی جانب سے دو ریاستی حل کا فارمولا بری طرح پٹ چکا ہے۔
یہ امر بھی واضح ہو چکا ہے کہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے فلسطینی عوام کی مرکزیت اب کسی امن منصوبے کی ضمانت نہیں بن سکتی۔ اوسلو معاہدہ، جنیوا، عرب امن منصوبہ، چار ملکی امن منصوبہ متعدد ایسی کمزور کوششیں ہیں جن کے ذریعے فلسطین میں قیام امن کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔
اسرائیلی انضمام کے حوالے سے فلسطینی جواب آنے والے مہینوں اور برسوں میں اسرائیلی استعماریت اور نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کا رخ متعین کرے گا۔
مجھے یقین ہے کہ فلسطینی اپنا راستہ تراشنے میں سنجیدہ ہیں۔ وہ فلسطینی اتھارٹی اور محمود عباس کے زبانی جمع خرچ اور عرب حکومتوں کی لایعنی حمایت اور تعاون سے ماورا ہو کر اپنی راہیں تلاش کرنے میں سنجیدہ ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم کے ذہن میں فلسطینی کاز کا خاتمہ نوشتہ دیوار ہے۔ عرب علاقوں کے انضمام کی اسرائیلی سکیم امکانی طور پر سیاسی کھیل کو ازسر نو ترتیب دینے میں مدد گار ہو سکتی ہے۔
فلسطینی علاقوں کے انضمام کا اجتماعی جواب فلسطینی اگر نئے انتفاضہ سے دیتے ہیں تو وہ یقینا اس میں حق بجانب ہیں۔