گیارہ سال قبل آج ہی کے دن لارڈز کے تاریخی میدان میں پاکستان نے سری لنکا کو ہرا کر دوسرا آئیی سی سی ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ جیتاتھا۔
پہلے آئی سی سی ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے فائنل میں جوہانسبرگ میں پاکستان جیت سے بس دو چار ہاتھ لب وبام رہ گیا تھا لیکن دوسرے ورلڈ کپ میں میں پاکستان نے ابتدا سے اپنا سفر مستحکم رکھا اور کسی بھی مرحلے پر اپنی توانائیوں میں کمی نہیں آنے دی۔
شاہد آفریدی اور عمر گل نے شروع سے پاکستان کی جیت کا سکرپٹ لکھنا شروع کیا تھا پورے ٹورنامنٹ میں دونوں چھائے رہے، جہاں شاہد آفریدی کمزور پڑتے تو وہاں عمر گل کی ریورس سوئنگ مخالف ٹیم کی بیٹنگ میں دراڑ ڈال دیتی تھی ۔
سری لنکا کے ساتھ فائنل بھی شاہد آفریدی شو تھا۔ پہلے تو بولنگ میں نپی تلی بولنگ کرکے سری لنکن بلے بازوں کو رنز بنانے سےروکے رکھا اور پھر جب خود بیٹنگ کرنے آئے تو صرف 40 گیندوں پر 54 رنز بناکر انیسویں اوور میں میچ ختم کردیا۔
جس وقت شاہد آفریدی نے سری لنکا کی امیدوں کے مرکز مرلی دھرن اور لاستھ ملنگا کو فلک شگاف چھکے لگائے تو لارڈز کے تاریخی میدان میں ہر طرف لالہ لالہ کا شور تھا اور سبز ہلالی جھنڈے تھے۔
پاکستان ٹیم نے اس دن سے ہی ٹی ٹونٹی کرکٹ میں اپنی بادشاہت کی بنیاد رکھ دی تھی۔
پاکستان کی کپتانی کا تاج یونس خان کے سر تھا جنھیں اس وقت کے چئیرمین اعجاز بٹ نے یہ سوچ کر بنایا تھا کہ سخت مزاج آدمی ہے، ٹیم میں موجود انتشار کو کنٹرول کرلے گا۔ حالانکہ یونس خان ٹی ٹونٹی کرکٹ کو تفریح سمجھتے تھے اور کبھی بھی اسے ایک سنجیدہ کرکٹ کے زمرے میں نہیں لیتے تھے۔ ان کے خیال میں کرکٹ وہی ہے جو سوچ سمجھ کر کھیلی جائے اور صلاحیتوں کا بھر پوراظہار کیا جائے۔
یونس خان اگرچہ ٹیم کو وکٹری سٹینڈ تک لے آئے تھے اور پاکستان نے دوسری دفعہ کوئی عالمی کپ جیتا تھا لیکن ان کے خیالات میں بدلاؤ کہیں نہیں آسکا تھا وہ اپنی بات پر قائم تھے اور جب میچ ختم ہونے کے بعد روایتی پریس کانفرنس ہوئی تو اپنے جسم پر سبزہلالی پرچم لپیٹے یونس خان دنیا بھر سے آئے ہوئے صحافیوں کے سامنے آئے تو ان کے چہرے پر جشن کا سورج نہیں بلکہ گہری رات کی خاموش سنجیدگی تھی۔
ان کے ہاتھ میں ٹرافی تھی نہ چہرے پر مسکراہٹ !!
اپنی پریس کانفرنس کا آغاز ہی یونس نے ٹی ٹونٹی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرکے کیا۔
یہ ایک انتہائی غیر متوقع اور مایوس کن اعلان تھا مگر شاید صرف غیر ملکی صحافیوں کے لیے، کیونکہ بحیثیت پاکستانی صحافی ہم پورے ٹورنامنٹ میں پاکستانی ٹیم میں تناؤ دیکھ رہے تھے اور محسوس کرچکے تھے کہ اکثر کھلاڑی یونس سے بہت کم بات کرتے تھے اور فاصلے کے ساتھ بیٹھتے تھے۔ بہت ضرورت کے وقت ہی ساتھ نظر آتے تھے ۔
فائنل کے دن بھی یونس بہت خاموش تھے اور فیلڈ کے دوران عادت کے خلاف کم بول رہے تھے۔
یونس ایک ایسے کھلاڑی ہیں جو کھیل میں بہت منہمک ہوجاتے ہیں اور ہر لمحے ٹیم سے منسلک رہتے ہیں لیکن آج ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔
جب شاہد آفریدی نے وننگ شاٹ کھیلا تو جونئیر کھلاڑی تو جشن منانے پچ کی طرف بھاگ رہے تھے اور یونس خان اپنا سامان سمیٹ رہے تھے ۔
ایک کپتان کا یہ رویہ کچھ نہ کچھ کہہ رہا تھا ۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پریس کانفرنس میں یونس خان کے چہرے پر تناؤ اور لہجے میں یاسیت اور اداسی تھی لیکن اس کے ساتھ پوری ٹیم کا شکریہ اورشاہد آفریدی سمیت سب کھلاڑیوں کے لیے کلمات تحسین بھی تھے ۔
پاکستان نے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ جیت کر پوری قوم کو خوشیاں دیں جیت کے ترانے دیے اور پاکستان کرکٹ بورڈ کو جشن کا موقع، لیکن کپتان یونس خان اس درد کو کبھی قوم کے سامنے بیان نہ کرسکے جو انگلینڈ کے دورے میں وہ جھیلتے رہے ۔
یونس خان اس جیت کے بعد چند ماہ ٹیم کی کپتان رہے لیکن پھر بورڈ کے چئیرمین شہریار خان کے ساتھ اختلافات کے بعد وہ پس منظر میں چلے گئے اور ایک سال تک کرکٹ نہ کھیل سکے ۔
شاید وہ سارے درد تھے جن کے باعث پاکستان کی تاریخ کے سب سے کامیاب بلے باز کے صبر کا پیمانہ چھلک گیا اور دل کے زخم زبان پر آگئے۔
اختلافات اور اتفاقات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے دوسرا آئی سی سی ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ پاکستان ٹیم کے لیے ایک یادگار ٹورنامنٹ تھا جس نے تاریخ میں ہمیشہ کے لیے 21 جون ایک یادگار دن کے نام سے محفوظ کردیا۔
پاکستان کرکٹ کے شائقین کے لیے یہ دن بھی ایک تاریخی دن ہے ۔