کراچی طیارہ حادثہ: ایک ماہ بعد لاش نمبر 112 کی شناخت کیسے ہوئی؟

حادثے کے بعد ایک ماہ تک لاش نمبر 112 کی شناخت ایک معمہ بنی رہی۔ تاہم متعدد ڈی این اے ٹیسٹس کے بعد اس کی شناخت احمد مجتبیٰ کے نام سے ہو گئی اور اب ان کی تدفین کراچی میں ہو گئی۔

کراچی طیارہ حادثے میں  97 افراد ہلاک ہوئے تھے(اے ایف پی)

گذشتہ ماہ لاہور سے کراچی آنے والی پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کی پرواز پی کے 8303 کے حادثے کو ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔

اس حادثے میں 97 افراد ہلاک ہوئے تھے جن کی لاشیں ان کے روثہ کے حوالے کردی گئیں تھیں۔ تاہم دو خاندان ایسے تھے جن کے پیاروں کی لاشیں ڈی این اے ٹیسٹ کے نتائج غلط آنے کے باعث تبدیل ہوگئیں تھیں۔

یہ بات اس وقت سامنے آئی جب تین ہفتے قبل کراچی کی رہائشی فضا خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو دیے ہوئے انٹرویو میں بتایا کہ اس حادثے میں ہلاک ہونے والے صرف ایک ہی شخص کی لاش اب کراچی کے چھیپا سرد خانے میں موجود ہے لیکن وہ لاش ان کے شوہر کی نہیں۔

فضا کا کہنا تھا کہ پنجاب فرانزک لیب کی ڈی این اے ٹیسٹ رپورٹ کے تحت چھیپا سرد خانے کی لاش نمبر 112 ان کے شوہر احمد مجتبیٰ خان کی ہے، مگر کئی روز قبل وہ لاش لاہور کے ایک خاندان نے پی آئی اے کے سٹیورڈ عبدالقیوم کی لاش سمجھ کر لاہور کے قبرستان میں دفنا دی تھی۔   

ہم نے جب عبدالقیوم کے اہل خانہ سے اس معاملے پر بات کی تھی تو ان کی اہلیہ فرح کا کہنا تھا کہ انہوں نے کراچی یونیورسٹی کی فرانزک لیب کے ڈی این اے ٹیسٹ نتائج کی بنا پر چھیپا سرد خانے سے لاش نمبر 112 وصول کی تھی اور تمام آخری رسومات کے ساتھ اسے دفنا بھی دیا تھا۔

ابتدائی طور پر انہوں نے فضا مجتبیٰ خان کے دعوؤں کو رد کرتے ہوئے اپنے شوہر کی قبر کشائی کرنے سے انکار کردیا تھا لیکن پی آئی اے کے بھر پور اصرار پر انہوں نے چند روز قبل ہی اس کی اجازت دی۔

اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے کئی بار کراچی یونیورسٹی کی فرانزک لیب سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں مل سکا۔

گذشتہ رات ایک ماہ کی جدوجہد کے بعد فضا اور ان کے اہل خانہ نے آخر کار احمد مجتبیٰ کی لاش کو آخری رسومات کے ساتھ کراچی کے ماڈل ٹاؤن قبرستان میں دفنا دیا۔

اس موقعے پر فضا کا کہنا تھا: ’پچھلا ایک مہینہ میرے لیے انتہائی تکلیف دہ تھا۔ میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ مجتبیٰ مجھے ایسے چھوڑ کر جائیں گے اور مجھے ان کی لاش حاصل کرنے کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانی پڑیں گی۔ مجھے ڈر تھا کہ اگر میں اپنے شوہر کی لاش دفنا نہیں پائی تو اپنے بچوں کو کیا جواب دوں گی۔ میں کسی کو قصور وار نہیں ٹھراتی مگر یہ ضروری نہیں تھا کہ اس عمل کو اتنا تکلیف دہ بنایا جائے۔‘

دوسری جانب سٹیورڈ عبدالقیوم کے اہل خانہ نے بھی لاہور سے کراچی آکر چھیپا سرد خانے سے ان کی لاش وصول کی اور گذشتہ روز اسی مقام پر عبدالقیوم کی تدفین کی گئی جہاں پہلے مجتبیٰ کی لاش غلط ٹیسٹ رپورٹ کے باعث دفنائی گئی تھی۔

دونوں لاشوں کی شناخت کیسے ہوئی؟

کراچی طیارے حادثے کے فوراً بعد فضا کے بھائی اور ان کے سسر نے کراچی ایدھی سرد خانے میں موجود تمام لاشوں کا جائزہ لیا تھا لیکن بظاہر ایسی کوئی نشانی نہیں تھی جس کی مدد سے وہ مرحوم مجتبیٰ کی شناخت کر پاتے۔ تاہم حادثے کے بعد دیگر فیملیز کے ساتھ مجتبیٰ کے والد نے بھی کراچی یونیورسٹی کی فرانزک لیب میں اپنا ڈی این اے نمونہ دیا تھا۔  

کئی روز گزر جانے کے بعد بھی مجتبیٰ کے والد کا ڈی این اے کسی بھی لاش کے ڈی این سے میچ نہیں ہوا البتہ اس دوران کراچی یونیورسٹی کی فرانزک لیب کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق سٹیورڈ عبدالقیوم کے اہل خانہ نے کراچی کے چھیپا سرد خانے سے لاش نمبر 112 وصول کرکے اس کی لاہور میں تدفین کردی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فضا خان کے مطابق اس دوران انہوں نے لاہور میں اپنے شوپر کی کمپنی کے کئی افراد سے پوچھ گچھ کی کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ شاید مجتبیٰ ہوائی جہاز میں سوار ہی نہیں تھے مگر پی آئی اے نے جب انہیں لاہور ایئر پورٹ کی سی سی ٹی وی فوٹیج دکھائی تو اس میں یہ واضح دیکھا جاسکتا تھا کہ مجتبیٰ نے پرواز بورڈ کی۔

اس تصدیق کے بعد فضا اور ان کے اہل خانہ نے تمام اداروں اور دیگر لواحقین سے مدد کی اپیل کی جس پر کراچی یونیورسٹی کی فرانزک لیب نے ایک بار پھر مجتبیٰ کے والد کا ڈی این اے سیمپل لیا۔ دوسری جانب لاہور میں اسی حادثے کے لواحقین میں سے عارف اقبال نامی شخص نے بھی ان کی کافی مدد کی۔

عارف اقبال کے دونوں بچے اس حادثے میں ہلاک ہوگئے تھے اور دو ہفتے گزر جانے کے باوجود بھی ان کے بچوں کی لاشوں کا کوئی سراغ نہیں مل پایا تھا۔ ان کے مطابق کراچی یونیورسٹی کی فرانزک لیب نے انہیں نتائج کے لیے 21 دن انتظار کرنے کا کہا تھا جو ان کے مطابق کافی لمبا عرصہ تھا۔ مجبوراً انہوں نے پنجاب کی فرانزک لیب سے رابطہ کیا جہاں سے انہیں دو دن میں نتائج حاصل ہوگئے اور اس کی بنا پر انہوں نے اپنے بچوں کی لاشیں ایدھی سرد خانے سے وصول کرکے کے لاہور میں تدفین کی۔

عارف اقبال نے مجتبیٰ کے والد عبد الموسط خان یوسف زئی کا ڈی این اے سیمپل پنجاب کی فرانزک لیب میں جمع کروایا جہاں اس حادثے میں ہلاک ہونے والے تمام افراد کے ڈی این اے سے ان کا سیمپل میچ کیا گیا تو یہ بات واضح ہوئی کہ کراچی میں چھیپا سرد خانے کی لاش نمبر112 کا ڈی این اے مجتبیٰ کے والد سے میچ کر گیا ہے، مگر گھر والوں نے جب لاش کے حوالےسے معلومات کیں تو پتہ چلا کہ عبدالقیوم نامی سٹیورڈ کے اہلِ خانہ لاش نمبر 112 وصول کرکے لاہور میں اس کی تدفین کر چکے ہیں۔

غلط لاش غلط خاندان کے پاس پہنچ جانے کے بعد پی آئی اے نے اس معاملے پر ایکشن لیا جس کے تحت مجتبیٰ اور سٹیورڈ عبدالقیوم کے اہل خانہ سے ان کے ڈی این سیمپلز دوبارہ لیے گئے اور اس حادثے میں ہلاک ہونے والے افراد کے ڈی این اے سے دوبارہ میچ کیے گئے۔ ایک ہفتے کے دوران مکمل جانچ کے بعد فضا خان کا یہ دعویٰ سچ ثابت ہوا کہ لاش نمبر 112 ہی ان کے شوہر احمد مجتبیٰ کی لاش ہے۔

سٹیورڈ عبدالقیوم کی اہلیہ کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ نتائج واضح ہو جانے کے بعد مجتبیٰ کی اہلیہ فضا نے ان سے رابطہ کیا تھا لیکن اس حوالے سے انہوں نے فضا کو یہ پیشکش کی تھی کہ مجتبیٰ کی لاش کیونکہ لاہور کے قبرستان میں دفن ہوچکی ہے اس لیے قبر کشائی نہ کروائی جائے اور چھیپا سرد خانے میں موجود ان کی شوہر کی لاش کو یا تو کراچی میں ہی دفن کردیا جائے یا پھر لاہور میں۔

البتہ فضا کے مطابق ان کی خواہش تھی کہ لاہور میں قبر کشائی ہو، ان کے شوہر کی لاش کراچی لائی جائے اور ان کی تدفین بھی یہیں کی جائے تاکہ ان کے بچے بڑے ہو کر اپنے والد کی قبر پر فاتحہ پڑھ سکیں۔

اس سلسلے میں دو روز قبل کراچی میں جوڈیشل میجسٹریٹ کے سامنے دونوں اہل خانہ کے افراد نے ایفیڈیوڈ پر دستخط کیے جس کے تحت یہ طے پایا کہ دونوں مرحومین احمد مجتبیٰ خان اور سٹیورڈ عبدالقیوم کی لاشیں ان کے اہل خانہ کے حوالے کی جائیں گی۔ اس کے بعد گذشتہ رات حادثے کے ایک ماہ کے بعد دونوں کو ان کے اپنے اپنے شہروں میں دفن کردیا گیا۔

کراچی طیارہ حادثے میں ہلاک ہونے والے مجتبیٰ کا تعلق حیدرآباد سے تھا لیکن ان کے رہائش کراچی میں تھی۔ مجتبٰی نے مہران یونیورسٹی جامشورو سے مکینیکل انجینیئرنگ کی تھی اور اسی شعبے میں کئی بڑی کمپنوں کا حصہ رہ چکے تھے۔ مجتبیٰ کو اداکاری اور وی لاگنگ کا بھی شوق تھا اسی لیے ان کا یوٹیوب پر ایک چینل ہے جس پر وہ اپنے تینوں بچوں کے ساتھ بنائے گئے وی لاگز بنا کر اپلوڈ کرتے تھے۔

پی آئی اے کے سٹیورڈ عبدالقیوم کا تعلق لاہور سے تھا اور وہ پچھلے 16 سال سے پی آئی اے میں ملازمت کررہے تھے۔ عبدالقیوم کی اہلیہ فرح بھی پی آئی اے کی ملازم رہ چکی ہیں۔ وہیں پر ان دونوں کی ملاقات ہوئی تھی۔ ان کی شادی کو نو سال مکمل ہونے والے تھے۔ ان کا ایک ساڑھے چھ سال کا بیٹا بھی ہے جس کا نام محمد شعیب ہے۔ فرح کے مطابق ان کے شوہر عبدالقیوم انتہائی نفیس شخص تھے اور حادثے سے ایک رات قبل انہوں نے اپنی بیوی سے عمرے پر لے جانے کا وعدہ بھی کیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان